Showing posts with label تذکرہ ٔ مفسرین امامیہ برّصغیر. Show all posts
Showing posts with label تذکرہ ٔ مفسرین امامیہ برّصغیر. Show all posts

Sunday, 3 March 2013

نوراﷲ شوشتری ، شہید ثالث(م۱۰۱۹ھ)

نوراﷲ شوشتری ، شہید ثالث(م۱۰۱۹ھ)
قاضی نوراﷲ شوشتری کی ولادت ۹۵۶ھ/۱۵۴۹ء میں ہوئی۔ آپ کے والد سید شریف حسینی مرعشی اور چچا سید صدر حسینی فقہ، اصول، تفسیر، حدیث کے بلند پایہ استاد تھے۔ آپ نے انھیں بزرگوں اور معاصرین سے کمال علم حاصل کیا۔ ۹۷۴ھ میں مشھد مقدس گئے اور آقایٔ عبدالواحد کے درس میں شرکت کی۔ درجہ فضل و کمال پر فائز ہوکر اساتذہ سے اجازے حاصل کئے۔
۹۹۱ھ میں حکیم فتح اﷲ شیرازی دربار اکبری میں کرسی نشین ہوئے تو انھوںنے اپنے ذوق و مسلک کے ارباب کمال کو جمع کیا ان میں قاضی نوراﷲ شوستری بھی شامل تھے۔ حکیم فتح اﷲ نے موصوف کو آگرے بلایا اور دربار اکبری میں پہنچایا۔ قاضی صاحب نے اپنے علم و فضل کے ذریعہ دربار میں ایک مقام بنایا فتح پور سیکری، اکبرآباد، لاہور، کشمیر میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔ قاضی معین لاہوری م ۹۹۵ھ) ضعف و پیری کی وجہ سے عہدہ قضاوت سے ہٹائے گئے تو ان کی جگہ سید نوراﷲ شوستری کو قاضی دار السلطنت لاہور مقرر کیا۔ آپ نے عہدہ قبول کرتے وقت یہ شرط کی تھی کہ مذاہب اربعہ فقہ میں سے وہ کسی کے پابند نہیں ہوںگے۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، جس فقہ کی رو سے چاہیں گے فیصلہ کریں گے۔ جس سے آپ کے تبحر علم کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ نے لاہور، آگرے کے مرکزی شہروں میں مذہب امامیہ کی ترویج کی، عقائد امامیہ کا کھل کر دفاع کیا۔
۱۰۱۴ھ میں قاضی صاحب آگرہ میں تھے اسی دوران شیخ روز بہان نے کتاب ’’ابطال باطل‘‘ ۔ آپ نے اس کے جواب میں ’’’احقاق الحق‘‘ نام سے معرکۃ الآرا کتاب لکھی جو ربیع الاول ۱۰۱۴ھ میں مکمل ہوئی۔ اسی سال ۱۳ جمادی الثانی ۱۰۱۴ھ میں اکبر بادشاہ کی رحلت ہوئی۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا جہانگیر آیا نظام بدلا افراد بدلے۔ قاضی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے وہ گروہ جو شیعہ دشمنی میں نمایاں تھا۔ سامنے آگیا بادشاہ کو آپ کے خلاف بھڑکا نے لگے غرضکہ آپ ثبات قدم، ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے رہے۔
جہانگیر نے علماء سے فتوے مانگے بیالیس مہروں اور فتوؤںکے ذریعہ فیصلہ دیا گیا۔
(۱) سوخاردار درّے لگائے جائیں۔ (۲) سیسہ پگھلاکر پلایاجائے۔ (۳)گدی سے زبان کھینچی جائے۔ (۴) سر قلم کیا جائے۔
شہادت:
۲۶؍ربیع الاول ۱۰۱۹ھ کو آپ جلاد کے سامنے لائے گئے۔ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی نماز کے بعد ایک ٹھیکرے پر یہ آیت لکھ کر فضا میں پھینکی
’’رب انی مغلوبٌ فانتصر‘‘
ٹھیکری واپس آئی تو لوگوں نے دیکھا اس پر لکھا تھا
’’ان کنت عبدی فاصطبر۱؎‘‘
اس کے بعد بادشاہ کے حکم سے بدترین اذیتیں پہنچا کر ۱۰۱۹ھ میں شہید کر دیا گیا جب سے آپ کو شہید ثالث کہا جاتا ہے۔ آپ کا مزار آگرہ میں زیارت گاہ خلائق ہے۔
ملا عبدالقادر بدایونی:
’’شیعہ مذہب کے پیروکار تھے اور نہایت منصف مزاج، عادل، نیک نفس، حیادار متقی تھے۔ شرفاء کی تمام خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ علم و فن، جدت طبع، تیزی فہم، اور ذہانت و ذکاوت جیسی تمام خوبیوں سے آراستہ تھے۔ ان کی بڑی اچھی اچھی تصانیف ہیں۔ شیخ فیضی کی مہمل بے نقط تفسیر پر انھوںنے سرنامہ لکھا جو حدتعریف سے ماورا ہے۔ شعر گوئی کا طبعی ملکہ ہے نہایت دلکش اشعارکہتے ہیں۔ شیخ ابوالفتح کے توسط سے بادشاہ کی بارگاہ میں رسائی ہوئی تھی۔‘‘
ملا صاحب آگے لکھتے ہیں :
’’انھوںنے لاہور کے شرپسندمفتیوں اور مکار محتسبوں کو جو معلم الملکوت شیطان کے بھی کان کاٹتے تھے۔ سیدھا کر دیا اور رشوت کے دروازے بخوبی بند کر دئے اور ان پر کڑی نگرانی رکھی کہ ان سے بڑھ کر انکا انتظام نہیں کیا جا سکتا تھا۱؎۔‘‘
صاحب طبقات مفسران شیعہ:
’’آن شہید سعید سید جلیل القدر عالم نبیل قاضی سید نور اﷲ شوستری (شہید ۱۰۱۹ھ) یکی از اعلام قرن دہم و اوائل قرنی یازدہم ہجری است اویکی از اعاظم علمای نامی در عہد صفویہ می باشد کہ در رشتہ ہای فقہ، اصول، حدیث، تفسیر و کلام سر آمد بود۔۲؎‘‘
صاحب نزہۃ الخواطر:
’’السید الشریف نوراﷲ بن شریف بن نوراﷲ الحسینی المرعشی التستری المشہور عندالشیعۃ بالشہید الثالث ولد سنۃ ست و خمسین و تسعمائۃ بمدینۃ تستر و نشاء بھا، ثم سافرالی المشہد و قراء العلم علی اساتذۃ ذالک المقام ثم قدم الہند و تقرب الی ابی الفتح بن عبدالرزاق الگیلانی فشفع لہ عند اکبر شاہ، ؤن گفولاہ القضاء بمدینۃ لاہور فاستقل الی ایام جھانگیر۱؎‘‘
آپ قرآنیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ متعدد حاشیے لکھے اور مختلف آیات قرآنی کی تفسیریں لکھیں۔
حاشیہ تفسیر بیضاوی:
انتہائی معلوماتی حاشیہ قلمبند کیا۔ اس کا مخطوطہ دو جلدوں میں کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے، دوسرا نسخہ کتب خانہ شہید مطھری تحت شمارہ ۲۰۹۵ میں محفوظ ہے۔
حاشیہ ثانی تفسیر بیضاوی:
مختصر عربی، اس کا نسخہ کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ مختلف آیات کی تفسیریں بھی لکھیں۔
انس الوحید فی تفسیر آیت العدل والتوحید: عربی قلمی۔ ’’شہد اﷲ اَنّہ لا الہ الا ہو‘‘ اس آیت کے ذیل میں علامہ تفتازانی کی جانب سے زمخشری پر کئے گئے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں۲؎۔ نیز فخرالدین رازی کے سوالات کے جواب بھی دئیے ۔ صاحب ریاض العلماء لکھتے ہیں کہ اس کا نسخہ میرے پاس موجود ہے۔۳؎
    تفسیر انماالمشر کون نجس۔ عربی خطی
    سحاب المطیر فی تفسیر آیت التطہیر    عربی مطبوعہ
    یہ تفسیر کتب خانہ ناصریہ میں محفوظ ہے۔
    رفع القدر فی تفسیر آیۃ شرح الصدر    عربی، قلمی
    یہ تفسیر ایشیاٹک سوسائٹی، بنگال میں موجود ہے۔
بعض آثار علمی:
مجالس المومنین، مصائب النواصب، الصوارم المھرقہ، شرح تہذیب الاحکام، حاشیہ برشرح ہدایۃ الحکمۃ، حاشیہ برشرح ملا جامی، حاشیہ بر شرح تجرید، حاشیہ بر قواعد علامہ، شرح بدیع المیزان، اللمعہ فی صلوٰۃ الجمعہ، عدۃ الابرار، نور العین، تحفۃ العقول، عشرہ کاملہ، گوہر شہوار، حاشیہ برشرح مختصرالاصول، حاشیہ بر مطوّل، رسالہ در اثبات مسح رجلین، حاشیہ خطبہ شرح مواقف، رسالہ فی غسل الجمعۃ، رسالہ انموذج، حاشیہ بر تحریر اقلیدس، حقیقت العصمت، حاشیہ برخلاصۃ الرجال، رسالہ فی رکنیۃ السجدتین، شرح دعا صباح، رسالہ در فضیلت عید شجاع وغیرہ۔



ابوالفضل، علّامی(م ۱۰۱۱ھ)

ابوالفضل، علّامی(م ۱۰۱۱ھ)
شیخ مبارک کے دوسرے فرزند تھے ۹۵۸ھ/۱۴؍جنوری ۱۵۵۱ء کو آگرہ میں متولد ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر میں علوم عقلیہ و نقلیہ سے فارغ ہوکر امتیازی حیثیت حاصل کی۔ گوشہ نشینی کی زندگی گذارنا چاہتے تھے مگر احباب کے اصرار کی وجہ سے اکبربادشاہ کے جلوس تخت کے انیسویں سال ان کی خدمت میں پہنچ کر ملازمت اختیار کی۔ پہلے منشی گری کی خدمت ملی پھر ذہانت کے ذریعہ عہدۂ وزارت تک پہنچ گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنی لیاقت کا سکہ بادشاہ کے دل میں ایسا بٹھا یا کہ بادشاہ کو ان کے علاوہ کسی پر اعتبار ہی نہیں رہا۔
شیخ عبدالنبی صدر الصدور ابوالفضل کی شیعیت کے سبب ان سے حسد کرتا تھا اور شیخ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتا تھا۔ مگر شیخ کی اعلیٰ صلاحیتوں اور نظم و نسق میں مہارت کے سبب کسی کی کچھ نہیں چلتی تھی۔
دکن سے واپسی کے موقع پر جہانگیر کے اشارہ سے راجہ ہرسنگھ دیو نے ’’رندیلہ‘‘ مقام پر ۱۰۱۱ھ/۱۶۰۲ء میں شیخ ابوالفضل کو قتل کر دیا۱؎۔
تفسیر اکبری:  شیخ ابوالفضل نے آیت الکرسی کی دقیق اور پرمغز تفسیر تحریر کی جس کا تاریخی نام تفسیر اکبری ۹۸۳ھ ہے۔ بادشاہ کی خدمت میں پیش کی۔ اکبر بادشاہ نے تفسیر کو بہت  پسند کیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔
ملاعبدالقادر بدایونی :
’’شیخ نے دوسری بار یابی کے موقع پر آیت الکرسی کی تفسیر پیش کی جس میں بہت سے قرآنی دقیق نکات تھے۱؎۔‘‘
سید صباح الدین عبدالرحمن:
’’ان ہی دنوں جب کہ وہ ان ذہنی پریشانیوں میں مبتلا تھا تو اس نے آیت الکرسی کی ایک تفسیر لکھی اور اکبر کے حضور میں پیش کی اکبر نے اس کو حسن قبول عطا کیا اور اپنی نوازشوں سے نواز کر اپنی ملازمت میں داخل کر لیا۔۲؎ ‘‘
صاحب نزہۃ الخواطرـ:
’’الشیخ العالم الکبیر العلامۃ ابوالفضل بن المبارک الناگوری اعلم و زراء الدولۃ التیموریۃ و اکبر ہم فی الحدس والفراسۃ و اصحابۃ الرای و سلامۃ الفکر و حلاوۃ المنطق والبراعۃ فی الانشائ…
ودعاء السلطان اکبر بن ہمایو التیموری بمدینۃ اکبرآباد مع والدہ فادرکہ فی حدود سنۃ احدی و ثمانین و تسعمائۃ مرۃ اولیٰ و اہدیٰ الیہ کتابۃ فی تفسیر آیۃ الکرسی ثم ادرکہ فی حدود سنۃ اثنتین و ثمانین مرۃ اخریٰ و اہدیٰ الیہ کتابہ فی تفسیر سورۃ الفتح فاستحسنہ السلطان و قربہ الی نفسہ۳؎‘‘
دیگر آثار علمی:
آئین اکبری        جامع اللغات
عیار دانش            مکاتبات علامی۴؎

ابوالفیض، فیضی(م ۱۰۰۴ھ)

ابوالفیض، فیضی(م ۱۰۰۴ھ)
گیارہویں صدی کے قابل فخر مفسرن قرآن آپ کا تخلص فیضی اورفیاضی تھا۔ شیخ مبارک ناگوری کے سب سے بڑے فرزند تھے۔بچپن سے ذہین وفطین تھے۔ ۹۵۴ھ/۱۵۴۷ء آگرہ میں متولد ہوئے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی اور کم سنی میں فارغ التحصیل ہوکر درجۂ کمال پر پہنچے جس کااعتراف خود فیضی نے اپنے دیوان کے آغاز میں کیا ہے۔
’’ولی نعمت من پدر حقیقی و خدائی مجازی استکہ از ریحان طفولیت کہ عقل ہیولانی در شتم صور معنی بمن والی  نمود قریحہ جامدہ رابہ بلندی راہمنون شد۔‘‘
شیخ کو مختلف علوم وفنون میں مہارت تھی۔ شعر،معمہ گوئی، علم عروض وقوافی،تاریخ،لغت،طب،انشاء علم ہیئت،ہندسہ میں ملکہ حاصل تھا۔عربی ، فارسی،سنسکرت زبانوںمیں مہارت تامہ رکھتے تھے۔فیضی جب بڑے ہوئے تو تلاش معاش میںاپنے والد کے ہمراہ شیخ عبدالنبی صدرالصدور کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے منصب کے طلبگار ہوئے شیخ عبدالنبی ان کے والد سے خلش رکھتے تھے۔ اس لیے انھوںنے ان پراور ان کے والد شیخ مبارک پر شیعیت کا الزام لگا کر دونوں کواپنی مجلس سے باہر نکال دیا۱؎۔
یہی نہیں بلکہ شیخ عبدالنبی اورمخدوم الملک نے ان کی بادشاہ سے شکایت کی جس کے نتیجہ میںشیخ مبارک اور ان کے لڑکوں کو آگرہ چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔
۹۷۵ھ/۱۵۶۷ء میں فیضی اپنی شاعری کی بدولت دربار شاہی میں باریاب ہوئے اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی وہ جب دربار میںپہنچے توایک نقرئی پنجرہ کے پاس سے جہاںوہ کھڑے تھے برجستہ قطعہ کہا
بادشاہان درون پنجرہ ام
از سر لطف خود مراجادہ
زانکہ من طوطی شکر خوائم
جائے طوطی درون پنجرہ بہ
فی البدیہ قطعہ بادشاہ کو بہت پسند آیا اس نے فوراً اسے اپنے قریب بلایا۔ اسی روز سے فیضی کو اکبر سے تقرب حاصل ہوا۔ اس کے چند روز بعد اس نے ڈھائیسو اشعار پرمشتمل ایک پرزور قصیدہ بادشاہ کی شان میں کہا جس کا مطلع   یہ ہے
سحر نویدرسان قاصد سلیمانی
رسید ہم چو سعادت کشادہ پیشانی
اکبربادشاہ کے دل میں روز بروزفیضی سے محبت بڑھتی چلی گئی۔جب بھی وہ کسی مہم پرجاتا فیضی کو ساتھ لے کر جاتا۔۹۸۲ھ/۱۵۷۴ء میں بنگال کی مہم میںبھی وہ اکبرکے ہمراہ تھے۔فیضی اپنی گوناگوں صلاحیتوںکی بنا پر سلطنت کے انتظامی امور ومعاملات میں دخیل ہوگئے نورتن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
اکبر نے فیضی کی ادبی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھ کر ’’ملک الشعرائ‘‘کاخطاب دیا۱؎۔
ابوالفیض فیضی کوائمہ علیھم السلام سے خاص عقیدت تھی۔ان کا ذکر منقبت میںانتہائی عقیدت واحترام سے کیا ہے۔منقبت میںچودہ اشعار میں بارہ اماموں کانام لے کر مدح سرائی کی ہے آخر میںکہتے ہیں۔
فیضی نشودخاتمۂ مابہ ہدایت
گرختم امامان ھدیٰ را نہ شناسیم۲؎
تفسیرسواطع الالھام:
یہ تفسیر  فیضی کا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے جوغیر منقوط تفسیر ہے۔جس سے فیضی کی عربی زبان پر گرفت اور عربی لغت پر عبور کااندازہ ہوتاہے۔ فیضی نے تفسیر لکھنے سے پہلے بطور مشق علم اخلاق میں ’’مواردالکلم‘‘ کتاب صنعت مہملہ میں لکھی ۔ فیضی کو اس صنعت میں نثر ونظم دونوں میں مہارت حاصل تھی۔
اس تفسیر کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں نولکشور لکھنؤ سے ۱۳۰۶ھ/۱۸۸۹ ء میں شائع ہوئی اس کے علاوہ ایران سے بھی طبع ہوچکی ہے۔
یہ تفسیر دو سال کی مدت میں بتاریخ ۱۰؍ربیع الثانی ۱۰۰۲ھ بروز دو شنبہ مکمل ہوئی۔ڈاکٹر حامد علی خاں لکھتے ہیں: فیضی نے تفسیر کے آخر میں تتمہ لکھا جس میں خداوند عالم کی توصیف اور حضرت رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ و سلم کی تعریف تحریر کرکے والد کے لیے دعائے مغفرت کی ۔تتمہ کی عبارت کو پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ فیضی کو تاریخ گوئی کے فن میں بھی اعلیٰ قدرت تھی۔خاتمہ میں ننانوے جملے ہیں جن میںسے چورانوے جملوں سے ایک ہزار دوہجری تاریخ برآمد  ہوتی ہے:
’’الحمدﷲمحصل المرام لکمل سواطع الالہام۔الہم المحرر و حدہ لا طراء اُسّ الکلام۔واﷲمسرّد الامور ومسہّل کمل المہام۱؎‘‘
ترجمہ: اس اﷲ کی تعریف جو مقصد و مراد کو پورا کرنے والا ہے کہ تفسیر ’’سواطع الالھام‘‘کی تکمیل ہوئی محررکو اﷲ کی طرف سے الہام ہوا کہ وہ اﷲ کے کلام کے اساسی مفہوم کو بطور احسن بیان کرے۔اﷲ امور کو اچھے طریقے سے انجام دینے والا اور مشکل ترین مہموں کوآسان بنادینے والاہے۔ فیضی نے آخرمیں بہ ترتیب حروف تہجی مشکل الفاظ کی فہرست درج کی ہے۔ تفسیر دیکھنے کے بعد ہم عصر علماء نے منظوم ومنثورتقریظیں لکھیںنولکشور لکھنؤ سے طبع ہونے والے نسخہ میں کچھ تقاریظ چھپی ہیں۔ جن میں قاضی نوراﷲ شوشتری معروف بہ شہید ثالث نے بھی بغیر نقطہ کے تقریظ تحریر کی۔ سید محمد حسینی، فضیل بن جلال کالپوری، محمدیعقوب صیرفی کشمیری،عبدالعزیز، احمد بن مصطفیٰ شریف، امان بن غازی قابل ذکر ہیں۔
ملاظہوری ترشیری نے صنعت مہملہ کے محاسن میں ایک زبردست قصیدہ اور تقریباً سترہ رباعیاں لکھیں۔ میر حیدر معمائی کاشانی نے سورہ اخلاص سے ’’سواطع الالھام‘‘ کی تاریخ نکالی فیضی اس تاریخ سے اسقدر خوش ہوئے کہ انھوںنے میر حیدر کو دس ہزار روپیہ بطور انعام دئیے۔ سواطع الالھام کی ایک عمدہ تاریخ ’’لارطب ولا یابس الافی کتاب مبین‘‘ ہے۱؎۔
بادشاہ اکبر نے اس تفسیر کو دیکھ کر فیضی کو دس ہزار روپیہ بطور انعام دئیے۔
مولانا غلام علی آزاد بلگرامی:
’’شیخ فیضی کی علمی لیاقت و فضیلت کی دلیل ان کی قرآن پاک کی بے نقطہ تفسیر ’’سواطع الالھام‘‘ ہے۔ ایسی تفسیر اس سے قبل ایک ہزار سال کی مدت میں کسی عالم یا مصنف کو لکھنا نصیب نہیںہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے دشوار کام کا انھوںنے صرف دو سال کی مدت میں تکملہ کر دیا۲؎۔ ‘‘
ملا عبدالقادر بدایونی نے فیضی کے عقائد کا مذاق اُڑایا اور انھیں راہ راست سے بھٹکا ہوا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ یہ سب کچھ شیعہ دشمنی کے سبب تھا۔ اگر فیضی کے عقائد خلاف شریعت ہوتے تو اس کا اظہار ان کی تحریروں سے ہوتا پھر انھیں تفسیر قرآن لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
مولانا محمد حسین آزاد:
’’زبانی باتوں میں ملا صاحب جو چاہیں کہیں مگر نفس مطالب میں جب نہ اب کوئی دم مار سکتا ورنہ ظاہر ہے کہ وہ بے دینی اور بد نفسی پر آجاتے تو جو چاہتے لکھ جاتے انھیں ڈر کس کا تھا۱؎۔‘‘
علامہ شبلی نعمانی:
’’فیضی نے تفسیران واقعات کے بعد لکھی ہے لیکن ایک ذرہ مسلمات کی شاہراہ سے نہیں ہٹا حالانکہ تفسیر میں ہر قدم پر اس کو آزاد خیالی دکھانے کا موقع حاصل تھا۔ ملا صاحب تو فرماتے ہیں کہ وہ تمام عقائد اسلام کا منکر تھا لیکن وہ ان تمام عقائد کا معترف نظر آتا ہے جن کو معتقدات عوام کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فیضی کی مذہبی آزادی ہم جو کچھ سنتے ہیں زبانی سنتے ہیں تصنیفات میں تو وہ ملائے مسجد ہی نظر آتے ہیں۔۲؎‘‘
تفسیر کی خصوصیت:
یہ تفسیر جامع و مانع ہے۔ محدود الفاظ میں وسیع مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نمونہ تفسیر:سورہ کوثر   بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’لما رحل ولد رسول اﷲ صلعم و ادر کہِ السلام و سمعہ العاص و کلم و ہو عسور لا ولد لہ لو ادر کہ السام ہلک و حسم اسمعہ صلعم ارسل اﷲ اِنَّا اَعْطَیْنَکَ محمد الکوثر العطاء الکامل علماً و عملاً و المورد الامرء ماء والا حمد ہداء و ورد ماء المدام و ہو مورد رسول اﷲ صلعم اعطاہ اﷲ صلعم کرما او المراد الا ولاد او علماء الاسلام او کلام اﷲ المرسل فَصلِّ دواماً لِربک اﷲ لا لما سواہ کما ہو عمل مرء مراء عمد الاسہواً وَ انْحر و اسرح ﷲ واعطہ اہل السوال وہو عکس الکلام الاول المصرح لا حوال اہل السہو و الصد و اعمالہم ان شَانِئَکَ عدوک ہوا الابتر المعدوم لا ولد لہ و ادام اﷲ اولادک و مراسم او امرک و مکارم عصرک و محامد مراسمک‘‘
فیضی نے تفسیر میں لغوی بحث بھی کی ہے
’’الاسم اصلہ سمؤ کعلم و مصدرہ السمّو وہوالعلو واحد سماء و ورد اُسُمٌ وَسِم وَ سمٌ اُوہم اسمہ اعلمہ و الموسم المعلم والاسم العلم والاول اصح لعدم و رود الاسام مکسّرا‘‘
فیضی نے ہر ایک سورہ کا مکی یا مدنی ہونا ’’موردھا ام الرحم و مورد ھا مصر رسول اﷲ کہہ کر بتایا ہے ۔
آپ نے مختلف علماء کے اقوال نقل کرکے اپنے خیال کا بھی اظہار کیا ہے۔
مالک یومٍ دین ’’رود ملک و ہوالاصح لما ورد کل مالکٍ ولا عکس فکل مالکٍ مامور ملکٍ لا عکسہ۔‘‘ ہر سورہ کے شروع میں اس سورہ کا مفہوم بطور خلاصہ بھی لکھا ہے۔
سورۃ البقرہ: ’’سمّوہا لورود احوالہا و محامد اطوار ہا وسطوع اسرار ہا علاء امورہا مماطال کلامہ‘‘ سورہ بقرہ کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ گائے کے حالات اس کے طور طریقوں کی تعریف اس کے اسرار  و اموز کی رفعت اور اس کے ایسے امور کی بلندی کا ذکر ہے جس کے لیے تفصیلی کلام درکار ہے۔
ابوالفیض نے تفسیر کا آغاز ان جملوں سے کیا
’’اﷲ لا الہ الاہو لا اعلمہ ماہو وما ادرکہ کما ہو احامد المحامد و محامد الا حامد اﷲ مصعد لو امع العلم و ملہم سواطع الالھام‘‘
 اس کے بعد دعا کی پروردگارا اس کام کو آسان فرما۔ اور اپنی تعلیم و تربیت کا ذکر کرتے ہوئے شہر کی تعریف بیان کی علما کی مجلسوں، مساجد، مدارس دیگر عبادت خانوں کا ذکر کیا۔ اس کے بعد بادشاہ کی تعریف کی اس کا نام اور فضائل اسی صنعت مہملہ میں تحریر کئے ہیں۱؎۔
اپنے والد شیخ مبارک اور بھائیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ چونکہ ہر نام میں نقطے ہیں اس لیے معموں سے کام نکالا والد کا ذکر اس طرح ہے ’’وہو اساس العلم واصل الروع و مطلع الالھام و راس الرؤس و امام الکرام۲؎‘‘
صاحب طبقات مفسران شیعہ:
’’در دیار ہند یکی از عجائب و غرایب جہان خلقت و از شاہکار ہا طبیعت وصناعت بہ شمار می آید ’’تاج محل‘‘ آن در آگرہ خود، یکی از عجائب ہفتگانہ جہان محسوب است، بس تعجبی ندارد کہ تفسیر آن قرآنی ہم کہ در آن دیار بہ رشتۂٔ تحریر در آمد۔ باشد یکی از عجایب حیرت انگیز جہان تفاسیر شیعہ بہ شمار می آید۱؎‘‘
وفات:
۱۰؍صفر ۱۰۰۴ھ/۱۶؍اکتوبر ۱۵۹۵ء کو بروز یکشنبہ ہوئی آگرہ میں تدفین ہوئی۔ وفات کے بعد فیضی کی متروکہ میں چار ہزار چھ سو مجلد نفیس کتابیں نکلیں ان میں سے اکثر خود ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں اور یہ سب شاہی کتب خانہ میں داخل کر دی گئیں۔
دیگر آثار:
    مواردالکلم
     مرکزِ ادوار مثنوی
     نل و دمن ہفت کشور
     اکبر نامہ
     سلیمان و بلقیس

مبارک، شیخ، ناگوری(م ۱۰۰۱ھ)

مبارک، شیخ، ناگوری(م ۱۰۰۱ھ)
گیارہویں صدی کے نامور مفسر قرآنشیخ مبارک بن خضر یمانی کے جد موسیٰ یمن سے آکر نویں صدی ہجری میں صوبہ سندھ کے علاقہ ایل میں مقیم ہوئے۔ شیخ موسیٰ کے پوتے رکن الدین ان کے بیٹے شیخ خضر سندھ سے نکل کر شہر ناگور (راجستھان) میں رہنے لگے۔
شیخ مبارک ۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء میں ناگور میں متولد ہوئے بلاکے ذہین وفطین تھے۔ ۱۴ سال کی عمر میں علوم متداولہ میں سے ہر فن کا ایک ایک متن حفظ تھا۔ شیخ عطن شیخ سالار ناگوری اوربقول بعض حضرات عبداﷲ احرار سے بھی کسب فیض کیا۔ خطیب ابوالفضل گا زرونی سے بھی عقیدت و تلمذ کا رشتہ رہا۔
تحصیل علم سے فراغت کے بعد ۶؍محرم ۹۵۰ھ کو آگرے کے قریب جمنا پار اترے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ گوشہ نشینی اور تصنیف و تالیف مشغلہ تھا۔ خود داری کا یہ عالم تھا کہ شیر شاہ سوری نے بلایا نہیں گئے، معاصرین نے مخالفت شروع کر دی شیعیت کے الزام میں بہت زیادہ ستائے گئے۔ میر حبش کو شیعہ کہہ کر قتل کیا گیا۔ جس کے سبب شیخ مبارک کو اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھ کر روپوش ہونا پڑا۔ جنگلوں صحراؤں کی خاک چھاننا پڑی جس کا تذکرہ شیخ ابوالفضل نے آئینہ اکبری میں کیا ہے۔
آپ سختی سے شریعت پر عمل پیرا تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے جس کو بھی خلاف شریعت عمل کرتے ہوئے دیکھتے تھے فوراً ٹوک دیتے تھے جس کا تذکرہ ملا عبدالقادر بدایونی نے اس طرح کیا ہے جوکہ فکری اعتبار سے ان کے مخالف تھے۔
’’شیخ مبارک اپنے عہد کے جلیل القدر عالم تھے تقویٰ، توکل اور صلاح میں ممتاز تھے۔ ابتداء میں انھوںنے بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے، ان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہر وقت خیال رہتا تھا۔ اگر ان کی مجلس میں کوئی شخص سونے کی انگوٹھی یا ریشم یا سرخ و زرد موزے یا کپڑے پہن کر آجاتا تھا تو اس کوفوراً مجلس ہی میں ان چیزوں کو اتار دینے کا حکم دیتے۔ اس طرح جن لوگوں کا جامہ دراز ہوتا تو اسے پھاڑ دینے کا حکم دیتے۔ اگر راستہ چلتے کسی مقام پر راگ یا نغمہ کی بھنک کان میں پڑ جاتی تو تیزی سے قدم بڑھاکر نکل جاتے تھے۱؎۔‘‘
خواجہ نظام الدین بخش:
’’از فحول علمائے روزگار و مشائخ کرام بود شان عظیم داشت۲؎۔ ‘‘
صاحب اخبار الاخیار :
’’ان کے کتاب خانہ میں پانچ سو کتابیں خود ان کے قلم سے لکھی ہوئی موجود تھیں۔۳؎‘‘‘
جلال الدین محمد اکبر کے ابتدائی دور میں جاہ طلب شیعہ دشمن علماء کا بہت زور تھا یہ طبقہ شیخ مبارک اور ان کے فرزندوں سے بہت زیادہ حسد اور دشمنی رکھتا تھا اور ہمیشہ ان کے درپئے آزار رہتا تھا  جس کی وجہ سے شیخ مبارک کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آگرہ چھوڑنا پڑا جس کا تذکرہ ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں بھی کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ جن دنوں میر حبش اور دوسرے اہل بدعت گرفتار اور قتل ہوئے۔انھیں ایام میں شیخ عبدالنبی صدرالصدور اور مخدوم الملک نے مل کر بادشاہ کے کان بھرے کہ شیخ مبارک مہدوی ہے اور اس پر مستزاد کہ اہل بدعت یعنی شیعہ بھی ہے۔ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہتا ہے۔یہ کہہ کر ان لوگوں نے بادشاہ سے برائے نام اجازت لی اور شیخ مبارک کا خاتمہ کرنے کے در پئے ہو گئے انھوںنے محتسبوںکو روانہ کیا کہ شیخ کو دربار میں حاضر کریں مگر وہ بچوں سمیت روپوش ہوگئے اور محتسب ان کی مسجد کا منبر توڑ کر واپس لوٹ آئے۱؎۔
 ہاشم علی خاں لکھتے ہیں کہ شیخ مبارک نے ایران سے آنے والے علماء سے استفادہ کیا اور ان کی صحبت میں رہ کر شیعہ مذہب کی طرف مائل ہو گئے تھے۲؎۔
صاحب حدائق الحنفیہ مولوی فقیر محمد جھلمی:
’’شیخ مبارک بن شیخ خضرناگوری اکبرآبادی والد شیخ ابوالفیض فیضی ہند کے علماء فحول میں سے فقیہ فاضل مفسر کامل، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے اپنی تمام عمر افادہ و افاضہ اور تنشیر علوم میں صرف کی۔ اخیر عمر میں باوجود یکہ آپ کی بینائی کم ہو گئی تھی مگر قوت حافظہ سے تفسیر ’’منبع عیون المعانی‘‘ چار جلد کلاں میں تصنیف کی اور ۱۰۰۱ھ میں وفات پائی اور آگرہ میں دفن کئے گئے۔ ’’فخرالملک‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔۳؎‘‘
میر غلام علی آزاد بلگرامی :
’’آپ کا ایک نہایت ہی حیرت انگریز کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے پانچ سو ضخیم کتابیں خود اپنے قلم سے تحریر کیں۔آخری عمر میں آنکھ کی روشنی زائل ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود اپنی قوت حافظہ سے پورے قرآن پاک کی تفسیر چار جلدوں میں تصنیف فرمائی اور تفسیر مذکور کا نام ’منبع عیون المعانی‘‘ رکھا۔ قوت حافظہ کایہ عالم تھا کہ تفسیر کی عبارت آپ مسلسل بلا تکلف بیان کرتے جاتے تھے اور املا نویس حضرات اس تقریر کو تحریر کرتے جاتے تھے۱؎۔‘‘
وفات:۱۷؍ذی القعدہ ۱۰۰۱ھ/ ۵؍اگست ۱۵۹۳ء کو بمقام لاہور ہوئی۔
آگرہ میں سپرد خاک کئے گئے آپ کا مزار لاڈلی بیگم کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہاں آپ کی بیٹی لاڈلی مدفون ہے۔
فیضیؔ نے ’’فخرالکمل‘‘ اور ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’شیخ کامل‘‘ سے مادہ تاریخ نکالا۲؎۔
صاحب نزہۃ الخواطر:
’’کان عالماً کبیراً بارعاً فی الفقہ و اصولہ عارفاً بدقائق العربیۃ ماہراً بالتصوف والشعر و فنون اخریٰ وکان یقرا القرآن بالقرأت العشر و یدرس ’’الشاطبی‘‘ وکان کثیراً المطالعۃ دائم الاشتغال بالدرس والافادۃ سریع الادراک قوی الحفظ لم یکن یحفظ شیئاً فینساہ و لما ضعف بصرہ لکبرسنہ و عجز عین المطالعہ اشتغل بتفسیر القرآن و صنف تفسیراً کبیراً فی اربع مجلدات کبار سماہ ’’منبع نفائس العیون۳؎‘‘
صاحب طبقات مفسراین شیعہ:
’’مؤلف بزرگوار تفسیر ’’منبع العیون‘‘ شیخ مبارک بن خضر یمانی ہندی (م ۱۰۰۱ھ) پدر دو مفسر عالیقدر ابوالفیض فیاضی و ابوالفضل علامی، یکی از بزرگان علمای وقت ہندوستان و یکی از اعلام قرن دہم و آغاز قرن یازدہم می باشد۔ او در عصر خود مرجعیت شیعیان آن خطہ را عہد دار و خود او بی سبھرہ از اصول عرفان و تصوف نیز نبودہ است۔ قرآن را باقرائات دہگانہ حفظ کردہ بود و در پایان عمر تفسیری بہ نام ’’منبع العیون‘‘ در چہار جلد بہ یادگار داشت او درسن ۹۰ سالگی بہ سال ۱۰۰۱ھ در لاہور از دنیا رخت بربست۱؎۔‘‘
تفسیر منبع عیون المعانی مطلع شموس المثانی:
 خطی عربی زبان میں پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر کتب خانہ ممتاز العلماء جنت مآب لکھنؤ میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر محمد سالم قدوائی:
پہلی جلد میں شروع کے اوراق نہیں ہیں اس کے بعد کی عبارت اس طرح ہے
’’للاٰثار مستکملا للعلوم سیما استماع الحدیث و اصولہ مضغا مسلسلامتنا اسنادآ و ضبط رجالہ و رواتہ تحقیقا و اتفاقاً من السنۃ بعض المشاہیر الصادرین من الحرمین الشریفین زادہا اﷲ شرفاً۔۔۔‘‘
اس تفسیر میں جن امور کو بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے
’’اس کتاب میں وجوہ نظم قرآن، قرات عشرہ، انواع وقوف و خواص آیات کا ذکر کرونگا نیز علمائے راسخین ، حکماء اور صاحب کشف عارفین نے جو معانی و مطالب بیان کئے ہیں انہیں بتاؤنگا جملوں کے ربط اور آیتوں اور سوروں کے درمیان جو مناسبت ہے اسے واضح کرونگا۔ انبیاء علیھم السلام کے قصص اقوام و ملل کے واقعات، اسباب نزول اور ناسخ و منسوخ کو بیان کرونگا اور یہ بتاؤںگا کہ سورتیں جن آیات پر ختم کی گئی ہیں ان کی وجہ کیا ہے۱؎۔‘‘
اس تفسیرپر مفصل مقدمہ لکھا ہے جس میں علوم قرآنی کا مفصل ذکر ہے۔
عرب کون تھے سب سے پہلے عربی زبان کس نے استعمال کی۔ اس زبان کی فضیلت کیا ہے۔ نزول قرآن کا بیان، وحی کا تذکرہ، نزول کی مدت، سورتوں کی تنزیل و ترتیب، مکی و مدنی سورتوں کا بیان، اعجاز قرآن، قرات  قرآن، تعلیم قرآن، تلاوت کے فوائد، معانی کا ذکر، قاریوں کا اختلاف، الفاظ کی کتابت کا بیان، اہل لغت کاتذکرہ غرض کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا ذکر مقدمہ میں نہیں کیا گیا ہو جس سے شیخ مبارک کی وسعت علمی اور گہرے مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹرمحمد سالم قدوائی لکھتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ کے تیس نام انھوںنے بیان کئے ہیں فاتحہ ، حمد، شکر، منتہ، سبع مثانی، ام الکتاب، ام القرآن، نور، کنز، دعا، مناجات، شافیہ، اساس، وافیہ وغیرہ اس میں سے ہر ایک نام کی الگ الگ توجیہ بھی بیان کی ہے اور یہ بیان کیا کہ یہ نام کیوں رکھا گیا اس کے بعد اس سورہ کی مفصل تفسیر کی ہے۔
پہلی جلد پارہ سیقول کی پہلی آیت کی تشریح پر ختم ہوتی ہے۔
دوسری جلد’’قال رب انی لا املک الانفسی واخی فافرق بیننا بین القوم الفاسقین ‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔
تیسری جلد :’’ فہل ینتظرون الامثل ایام الذین خلوا من قبلہم قل فانتنظروا انی معکم من المنتظرین ‘‘تک ہے۔
چوتھی جلد :’’ فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا  پر ختم ہوتی ہے یعنی سورہ کہف کے خاتمے تک۔
پانچویں جلد : شروع سے ایک صفحہ غائب ہے’’  وما علمناہ الشعرو ما ینبغی لہ ‘‘ختم قرآن تک یہ تفسیر تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
پہلی جلد میں مصنف نے اپنے حالات اور اس دور کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تفسیر کی ضرورت و اہمیت کے علاوہ، علوم قرآنی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس تفسیر کے مطالعہ سے آپ کی رقت نظر اور عمیق بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شیخ نے سورہ کو شروع کرتے وقت ابتداء میں اس کا مضمون بطورخلاصہ بیان کر دیا ہے تاکہ سورہ کے مطالب ذہن نشین ہو جائیں۔
سوروں کے درمیان ارتباط کو بھی واضح کیا ہے۔ سورہ کے اختتام پر دعائیہ کلمات ہیں جو مفہوم کے اعتبارسے تو یکساں ہوتے ہیں مگر الفاظ مختلف ہوتے ہیں۱؎۔
اولاد:
شیخ ابوالفیض فیضی، شیخ ابوالفضل، شیخ ابوالخیر، شیخ ابوالبرکات، شیخ ابوالکلام، شیخ ابو تراب، شیخ ابوالحامد۔
    لڑکیوں میں لاڈلی بیگم زوجہ خاوند خاں شیعی و زوجہ فرزند راجہ علی خاں۔


محمد بن احمد خواجگی شیرازی (م۹۸۸ھ)

محمد بن احمد خواجگی شیرازی (م۹۸۸ھ)
ملا محمد بن احمد خواجگی بن عطاء اﷲ شیرازی۔ جامع معقول و منقول تھے۔ نظام شاہ دکن کے عہد میں وارد ہندہوئے اور بیجاپور میں قیام کیا۔ خواجہ جلال الدین محمد کے شاگرد خاص تھے۔ جو فلسفہ و کلام کے مسلم الثبوت استاد تھے۔
ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی جونپوری نے آپ سے کسب علم کیا۔ آپ کی وفات ۹۸۸ھ میں ہوئی۔
تفسیر بحرالمعانی:
آپ نے فارسی زبان میں معرکۃ الآرا تفسیر لکھی جس میں معقولات کے مباحث زیر بحث لائے ہیں۔ اسی تفسیر کو بعض محققین نے تفسیر مجمع البیان کا خلاصہ تحریر کیا ہے۔
صاحب طبقات مفسران شیعہ:
’’نواح حیدرآباد دکن میں رہتے تھے دسویں صدی کے ممتاز علماء میں شمار ہوتا تھا۔ آپ نے تفسیر مجمع البیان کا خلاصہ سلطان ابراہیم قطب شاہ کے لیے کیا۔‘‘
تلخیص مجمع البیان:
اس تفسیر کا خطی نسخہ جو سورہ نساء تک ہے کتابخانہ آستان قدس رضوی مشہدمیں محفوظ ہے۔
ابتدائ:
’’الحمدﷲالذی انزل القرآن ہدی  للناس‘‘
نسخہ کی پشت پر قاضی نور اﷲ شوشتری  کے دستخط ہیں جس کی تاریخ ۱۰۱۱ھ ہے اور یہ عبارت تحریر ہے۔
’’یہ کتاب ان اشیاء میںسے ہے جنھیں از بکیان خزانہ امام رضاؒ سے ہندوستان لے گئے تھے۔قاضی نوراﷲ نے اسے حاصل کیا اوردوبارہ اسے مخزن کتابخانہ امام رضاؑمیں واپس پلٹایا۔۱؎‘‘
دوسری تالیف:
شرح باب حادی عشر ہے جس کی تالیف سے ۹۵۲ء میں فراغت پائی۲؎۔

محمد طاہر بن مہدی دکنی (م ۹۵۲ھ)

محمد طاہر بن مہدی دکنی (م ۹۵۲ھ)
آپ نے تفسیر بیضاوی پر تحقیقی حاشیہ لکھا۔آپ کی ولادت۸۸۰ھ/۱۴۷۵ء میں ہوئی۔ آپ کا رتبہ علوم ظاہری و باطنی، فصاحت بیان، طلاقت لسان، صورت وسیرت میں اعلیٰ تھا صاحب تاریخ فرشتہ لکھتے ہیں: مصر ،بخارا، سمرقندو قزوین کے لوگ آپ کے معتقدتھے شاہ اسمٰعیل صفوی شہنشاہ ایران آپ سے بدظن ہوئے تو اواخر ۹۲۶ھ موسم سرما میں عازم ہند ہوئے اور بروز جمعہ بندرحیرون پہنچے، اسی دن کشتی چھوٹی اور دوسرے جمعہ کو بندرگوا  پہونچے وہاں سے بیجاپور آئے اسمعٰیل عادل شاہ کازمانہ تھا وہ سوائے ارباب شمشیر کے اور کسی پر توجہ نہ کرتا تھا آپ کی طرف التفات نہ کی تو آپ حج کو روانہ ہوگئے اور بعد ادائے حج و زیارات مدینہ منورہ و زیارات عراق وغیرہ سے مشرف ہوکرپھر قلعہ پرندہ میںواردہوئے جہاں مخدوم خواجہ جہاں دکنی، امراء سلاطین ہمیشہ سے تھے اور نظام شاہ سے ملتجی ہوکر اس قلعہ میں رہتے تھے۔ملا صاحب کی تشریف آوری کی خبرپاکرنہایت احترام و اکرام سے اپنے پاس بٹھایا اورنہایت اصرار سے ٹھہرایا اور ان کے فرزندکتب علمیہ پڑھنے میں مشغول ہوئے۔ اتفاقاً اسی عرصہ میں برہان شاہ نے اپنے استاد اور مولانا پیرمحمدشیروان کوبہ رسم رسالت خواجہ دکنی کے پاس پرندہ میں بھیجا وہاںوہ شاہ طاہر کی خدمت میں پہنچے دیکھا تو ایک فرشتہ بصورت بشرہے ملا پیرمحمد نے اس وجود کونعمت غیرمترقبہ سمجھ کر وہاں سال بھرقیام کیا اورکتاب مجسطی پڑھی اب توتمام دکن میں یہ غل ہو گیا کہ پرندہ میںایسا بزرگوار ہے کہ پیرمحمد جیسااستاد اسکا شاگردہوگیا جب ملاپیر محمدپھر احمد نگرمیںواپس آئے اوربرہانشاہ کی خدمت میںحاضر ہوئے تووجہ توقف بیان کرکے شاہ صاحب کی بہت تعریف کی کہ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے اور عمربھر میں نے ایساعالم وفاضل ایران و توران اورہندوستان میں نہیں دیکھا اس جامع فیوض نامتناہی کی برکات مجھ بے بضاعت کے شامل حال ہوئیں اور ایسے مجہولات اور اسرار منکشف ہوئے کہ طائر بلند پروازفہم انسانی اس کے مدارج عالیہ کے کنہ کمال میںراہ نہیںپاتا اورعقول نکتہ داں عقلائے زمان کواس اطوار سے نہ آگاہی نہیں   ؎
دروصف کمالش عقلا حیراں اند
بقراط حکیم وبو علی ناداں اند
بایں ہمہ علم و حکمت و فضل و کمال
در مکتب علم او الف باخوانند
اب تو برہان نظام شاہ کو بھی قدم بوسی کاشرف ہوااورایک عریضہ لکھ کرپیرمحمداستادکے ہاتھ قلعہ پرندہ میںبھیجا پھر تو خواجہ جہاںنے مجبور ہوکر شاہ صاحب کو ۹۲۸ھ میں احمدنگربھیج دیا تمام اراکین دولت واشراف واعیان سلطنت چارکوس تک استقبال کوآئے اورشاہ صاحب کو نہایت اعزازواکرام سے شہرمیںلائے برہان شاہ نے تمام مقربین سے آپ کی قدر ومنزلت زیادہ کی اور خواہش کی کہ قلعہ احمدنگر کی جامع مسجدمیںمجلس درس منعقد فرما دیں شاہ صاحب اس کے کہنے کے موافق ہفتہ میں دوروز علمائے دارالسلطنت کے ساتھ بحث علمی میںمشغول ہوتے تھے اوربڑا مجمع ہوتاتھا اوراکثر خودبرہان شاہ بھی آکرمودب بیٹھتا اورجب تک مباحثہ رہتا مجلس برخواست نہ ہوتی تھی اسی زمانہ میںچھوٹا شہزادہ عبدالقادر تپ محرقہ میںمبتلا ہوا برہان شاہ اس سے بہت مانوس تھامضطرہوکرحکیم قاسم بیگ اور دیگرحکماء سے فرمایاکہ اگرمیراجگربھی دوا میں کام آجائے تودریغ نہیںاوراپنی حیات پر اس کی زندگانی کو بہتر جانتا ہوں مگر ع
مرض بڑھتاہی گیا جوں جوںدوا کی
اب طاقت طاق ہو گئی حکماء نے جواب دے دیا برہان شاہ نے ہر مسلم و غیر مسلم سے التماس دعا کی شاہ طاہر نے موقع پاکر کہا کہ شاہزادہ کی صحت کے بارے میںمیری ایک تجویز ہے مگر اس کے اظہار میں خطرات بے شمار ہیں برہان شاہ نے کہا کہ بیان کرو میں بھی حتی الامکان کوشش کروں گا اور آپ کوکوئی گزندنہ پہنچے گا شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ خوف ہے کہ آپ کے مزاج کے خلاف ہو اورمیں معتوب ہوں اوردشمنوں کوہنسی کاموقع ہاتھ آئے بادشاہ نے حدسے زیادہ مبالغہ کیاتو آپ نے جرأت کرکے اول اتناہی کہا کہ اگرشاہزادہ آج ہی کی شب شفاپائے تو آپ نذرمانیں کہ زرکثیر سادات اولاد  دوازدہ ائمہ معصومین کو دونگا بادشاہ نے کہا کہ کون بارہ امام شاہ صاحب نے اسمائے مقدسہ اور ان کے اوصاف دل نشین کرائے بادشاہ نے کہا کہ یہ نام میں نے اپنی والدہ سے سنے تھے یا آج آپ سے سنتاہوں شاہ طاہرنے کہاکہ میرا مطلب یہی ہے مگرجب کہوںگا کہ جب آپ مجھ سے عہد کریںگے کہ اگر آپ کوناگوار ہوتومجھے مع میرے عیال کے مکہ کواجازت دی جائے بادشاہ نے عہدکیا قرآن اٹھایاقسم شرعی کھائی کہ ہرگز آزارنہ دوںگا تب شاہ صاحب نے فرمایاکہ آج شب جمعہ میں نذرکیجئے کہ حضرت باری چہاردہ معصومین علیھم السلام کی برکت سے آج شب کوشہزادہ کو شفا فرمائے توخطبہ ائمہ علیھم السلام کے ناموںکا پڑھواکران کے مذہب کورواج دوںگا چونکہ بادشاہ شہزادہ سے مانوس تھااوراس کی حیات سے مایوس تو یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اپنا ہاتھ ملا صاحب کے ہاتھ پر رکھ کر عہد کیا بادشاہ تمام رات شہزادہ کے پلنگ کے پاس بیٹھا رہا ہر چند چاہتا تھا کہ شاہزادہ کو لحاف اڑھائے مگر وہ بچہ شدت حرارت سے ہاتھ پاؤں مار کر لحاف پھینک دیتا تھا بادشاہ یہ حالت دیکھ کر جانتا تھا کہ یہ بچہ آج کی رات کا مہمان ہے اب اس پر لحاف ڈالوتاکہ ایک ساعت تو خوش حال رہے اوردنیا کی ہوا کھا لے باشاہ صبح تک بیٹھا رہا اور سر عبدالقادر کے پلنگ پررکھ دیا تو ذرا غنودگی آگئی ناگاہ ایک بزرگوار نورانی صورت مع بارہ بزرگوار تشریف لائے بادشاہ نے ان کااستقبال کیا اور سامنے مودب کھڑا ہوا ان میںسے ایک صاحب نے فرمایاکہ تو جانتاہے یہ صاحب کون ہیں یہ جناب رسول خدا صلی اﷲعلیہ و آلہ و سلم اور یہ بارہ ائمہ ہدیٰ ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بارہ اماموں کی برکت سے عبدالقادر کوشفابخشی مگرمیرے فرزند شاہ محمد طاہر کے کہنے سے تجاوز نہ کرنابادشاہ خوش خوش بیدارہوا دیکھا کہ عبدالقادر لحاف اوڑھے پڑا ہے اس کی ماںاور دایہ دونوںبیدار تھیں پوچھا کہ یہ لحاف اس پر کس نے اڑھایا انھوںنے کہا کہ لحاف خود بخود جاپڑا ہم ڈرے اور طاقت کلام ہم میں نہ رہی اب جو بادشاہ نے دیکھاتو تپ ندارداورشاہزادہ آرام سے سو رہا ہے بادشاہ شکرخدا بجالایا اور فوراً چوبدار بھیجا کہ شاہ صاحب کو لاؤ اس نے دروازہ کی زنجیر ہلائی دستک دی اورادھر شاہ صاحب کی یہ حالت تھی کہ سربرہنہ خشوع وخضوع سے سجدہ میں بچہ کی صحت کی دعا کر رہے تھے چوبدار کی آواز سن کر پریشان ہوئے کہ یا توبادشاہ کے خلاف مزاج ہوا یا شاہزادہ مر گیا اور یہ موت کا فرشتہ ہے۔ ناگاہ دوسرا آدمی آیا اورفکر ہوئی اور چاہا کہ مکان کی پشت کی طرف سے کود کر بھاگ جائیں ناگاہ چھ سات آدمی متواتر آئے شاہ صاحب خدا پر توکل کرکے عازم ہوئے اہل و عیال کو رخصت کیا اوروصایا فرما کر بادشاہ کے پاس آئے جب بادشاہ کوآنے کی خبر ملی تو دروازہ تک استقبال کیا ہاتھ پکڑ کرعبدالقادر کے سرہانے لائے اورکہا کہ مذہب شیعہ مجھ کو تعلیم کرو شاہ صاحب نے کہا کہ پہلے حقیقت حال بیان فرمایئے توکچھ عرض کروں بادشاہ نے کہا کہ مجھے صبر نہیں پہلے مذہب شیعہ تعلیم کرو شاہ صاحب نے پھر وہی جواب دیاتو بادشاہ نے ساراقصہ کہا تب شاہ صاحب نے اسمائے معصومین ان کوتعلیم کئے اور فضائل ومناقب بیان فرمائے۔بادشاہ اورشاہزادہ حسین اورعبدالقادر اور ان کی والدہ بی بی آمنہ اور بھی مرد عورت اورمتعلقین کوشاہ صاحب نے ولائے اہل بیتؑ سے سرشار کر دیا الغرض صبح طالع ہوئی برہان شاہ نے چاہاکہ خطبہ میںبارہ اماموںکے نام داخل ہوںشاہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی یہ رازفاش نہ کیا جائے۔بلکہ چاروںمذہب کے علماء جمع کرکے حکم دیجئے کہ میںمذہب حق کاجویا ہوں تمام اتفاق کرکے اسی کواختیار کریںاورمیںبھی وہی مذہب اختیار کروںگابادشاہ نے ملا پیر محمداستاد اورافضل خاںاور ملا داؤد دہلوی وغیرہ جو احمدنگرمیںتھے جمع کیا اورمدرسہ شاہ طاہرمیںمباحثہ ہواہرعالم اپنے مذہب کی تائید اوردوسرے مذہب کی تردید کرتااکثراوقات برہان شاہ بھی موجود ہوتاچندماہ مباحثہ رہامگرکچھ نہ ہوا تب بادشاہ صاحب سے کہا کہ اب تک کسی مذہب کو ترجیح ثابت نہیںہوئی لہٰذا کوئی اورمذہب بھی ہے کہ وہی اختیار کروں اور اس کے حق وبطلان میںغور کیا جائے شاہ صاحب نے فرمایا کہ ایک مذہب اثنا عشری اور ہے اگرہو تو اس کی کتابیںحاضرکردوںبادشاہ نے حکم دیا اور ایک عالم بھی بہت تلاش سے ملے جن کا نام نامی شیخ احمد نجفی تھا ان کا چاروں مذہب کے علماء سے مناظرہ ہوا اور شاہ صاحب بھی ان کی مدد کرتے تھے اب معلوم ہوا کہ شاہ صاحب شیعہ ہیں تو سب کو عداوت ہوگئی اور بحث کتب اہل سنت سے چھڑ گئی تو سب مغلوب ہوگئے تو بادشاہ نے عبدالقادر کی بیماری اور صحت کا قصہ بہ تفصیل سب کو سنایا تو اسی وقت اکثر علماء ومقربین اور ہر طبقہ کے اور غلامان ترکی و ہندی و حبش وامراء ومنصب دار و سپاہی وشاگرد و پیشہ و رو جاروب کشان وفراشان و فیل بانان وغیرہ تقریباً  تین ہزار آدمی شیعہ ہوکر بایمان ہوئے اوربارہ ائمہ کے نام خطبہ میںداخل کئے گئے اورمومنیت کی بنیاد پڑ گئی جب ملا پیر محمد استاد اور دیگر علماء نے یہ رنگ دیکھا تواس جلسہ سے پریشان اورپشیمان ہوکر نکلے اوراحمدنگر میںشور وغوغا ہوگیارات کے وقت بہت سے امراء ومنصبدار پیر محمد کے مکان پر جمع ہوئے اور کہا ع اے بادصبا این ہمہ آوردہ تست، اس سید بلائے دل ودین کو کہاں سے لے آئے چونکہ علوم عربیہ سے واقف ہے تو بادشاہ کو گمراہ اور علماء پرافسوں کرکے ان کی زبانوں کو بند کردیا اب کیا کرنا چاہئے بعض نے قتل کا مشورہ دیا مگر پیر محمدنے کہا کہ جب تک بادشاہ زندہ ہے یہ نہیںہو سکتا۔لہٰذا اول بادشاہ کوتخت سے معزول کرو اورشہزادہ عبدالقادر کوتخت نشین کرو توپھرملا طاہر کوعبرت کے لیے قتل کرو بارہ ہزارسوار پیادہ اجماع کرکے پیر محمد کے ساتھ قلعہ کے دروازہ پر کالے چبوترہ کے پاس جمع ہوکر محاصرہ پر تیار ہوئے اورشاہ صاحب کے گھر کو مع ان کے فرزندوںکے موکلوں کے حوالہ کردیا برہان شاہ نے سن کر حکم دیاکہ قلعہ بندکرلواور قلعہ کی برجوںپر جاکر توپ سے کام لو جب بہت غوغاں ہوا تو شاہ صاحب سے مضطر ہوکر پوچھا کہ اب کیا ہوگا شاہ صاحب علم جفرمیں ملا شمس الدین جعفر کے شاگرد تھے قرعہ ڈال کرحکم دیاکہ ابھی فتح ہوگی دروازہ قلعہ کا کھول دو اورسوار ہو بادشاہ فوراً مسلح ہوکرسوار ہوا اورایک ہزارپیدل اور پانچ ہاتھی مع چترسبزعلم شاہ صاحب کے ساتھ نکلے شاہ صاحب نے ایک مٹھی خاک لے کر اس پرآیہ الجمع آخر تک پڑھ کر ہوا کی طرف پھینکی اورچند نقیبوں کوحکم دیاکہ دشمنوںکے پاس جاکر پکارو کہ جو خیرخواہ سلطنت ہو وہ چترسبز کے نیچے آجائے اور جو حرام خور ہو وہ پیر محمد کے ساتھ منتظر قہر سلطانی کا رہے اور افسران سپاہ امان لے کر بادشاہ کے ہم رکاب ہو گئے اورپیرمحمدمع چندسپاہیوں کے گھر کوچلاگیا بادشاہ نے ملک احمد تبریزی اورخواجگی محمود کومع فوج معتمدپیر محمد پرمقرر کیا کہ اس کو پکڑ کر لاؤ جب وہ  پکڑاہواآیا تو بادشاہ نے حکم دیا  لیکن شاہ صاحب کی سفارش سے کسی قلعہ میںقیدکردیااورچار سال قید رہااورشاہ صاحب کی سفارش سے رہائی پائی اورپھر مقرب شاہی کرایا گیا اورجہاں برہان شاہ نے خواب دیکھا تھاوہاں عالیشان عمارت بنوائی اور مسجد شروع کی جواوائل عہدمرتضیٰ نظام شاہ میںپوری ہوئی اور مذہب حق کاعروج شروع ہوا اورایک چار دیواری پختہ عالیشان قلعہ احمد نگرکے سامنے بنوائی اور اس کانام لنگردوازدہ امام رکھااورچند گاؤںاس کے نام وقف کئے اور ہر روز صبح کوکھانا مومنین کوتقسیم ہوتا تھا اورخزانہ شاہی سے زرکثیرعراق وخراسان وغیرہ پہنچتے تھے اورشیعوںکوادھر ادھرسے بلاتے تھے پھر توتھوڑے ہی زمانہ میںساتوںولایت کے قابل ولایق شیعہ جمع ہوگئے مثل شاہ جعفربرادر شاہ طاہر اورملاشاہ محمدنیشاپوری اورملاعلی کلاسترآبادی اورملارستم جرجانی اورملاعلی مازندانی اورایوب ابو برکت اورملاعزیزاﷲگیلانی اورمحمدامامی استرآبادی اورافاضل واکابردکن آئے اور احمد نگر کو گلستان ارم بنادیا جب شاہ اسمٰعیل صفوی شہنشاہ ایران نے برہان شاہ کا شیعہ ہوناسناتو ۹۵۰ھ میںبہت سے تحائف برہان شاہ کے واسطے اورتہنیت نامہ بھیجاتوعقیق کی ایک انگشتری کہ جومدتوںشاہ ایران کی انگلی میںرہی تھی اوراس پر کندہ تھاالتوفیق من اﷲ)شا ہ صاحب کے لیے بھیجی تو شاہ صاحب نے بھی اپنے فرزند شاہ حیدر کے ہاتھ تحائف ہند بھیجے اور شاہ حیدر بھی بڑے فاضل وباکمال تھے۔شاہ طاہر نہایت ذہین وذکی تھے اورطبیعت نکتہ رس تھی چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ سرگیں بخارا طاہر ہے یانجس توآپنے فوراً فرمایا کہ کتاب دیکھ کر کہوںگا اورشاہ صاحب نے ۹۵۶ھ میںانتقال فرمایاشہرکے چھوٹے بڑوں کو صدمہ ہوا۔ اس وقت آپ کی لاش امانت رکھی گئی اورپھر روانہ کربلائے معلی کی گئی اور امام حسین کے گنبد کے اندر قبر مقدس سے تخمیناً ڈیڑھ گز کے فاصلے سے آپ کو دفن کیا۔ تین لڑکیاں اورچارلڑکے وارث چھوڑے لڑکوںکے نام یہ تھے شاہ حیدر شاہ رفیع الدین حسین شاہ ابوالحسن شاہ ابو طالب شاہ حیدرعراق میں رہے اور باقی دکن میں اور شاہ حیدر شاہ صاحب کی وفات کے وقت ایران میں شاہ طہماسب کے پاس تھے واپسی کے بعد حسب الوصیت سجاہ نشین ہوئے اور مقتدائے ارباب عقیدت گزین ہوئے شاہ صاحب عفت و ورع،تقوی و دینداری ومروت وسخاوت وعلم وتواضع سے متصف اوروجیہ وخوش بیان اموراسلام میں نہایت سرگرم تھے ہر صغیر وکبیر کے دلوںپرخیرخواہی کا سکہ تھا زبان گوہر افشان حقائق مصحف آسمانی کے مفسراور بیان ہدایت نشان دقائق کتب سبحانی کامظہر اور قلب مبارک آثار ولایت و ارشاد کا مطلع اور خاطر فرخندہ مآثر مہبط انوار ہدایت ارشاد تھا مشائخ کبار اوراہل دل کی صحبت اٹھائے ہوئے علم تفسیر وحدیث و فقہ واصول و ریاضی اورتمام حکمیات ورمل وجفرمیںبے مثل اور نظم و نثر کے ماہر دیوان قصائد وکتاب انشاء آپ کی تمام ہندو غیر ہ میںمشہور ہیں تصانیف آپ کی یہ ہیں شرح باب حادی عشر علم کلام میں اور شرح جعفریہ فقہ میںاورحاشیہ تفسیر بیضاوی اورحواشی شرح اشارات ومحاکمات شفا اورمجسطی ومطول و گلشن زار اور شرح تحفہ شاہی اوررسالہ پالکی کہ کسی سفر ہند میں پالکی میں سوار تھے اوراثنائے راہ میںلکھا تھاجب کہ آپ بطریق رسالت احمد نگر میںگئے توتمام طلاب وعلماء آپ سے ملنے آئے مگر ایک عالم دکن کہ اپنے کو اعلم علمائے جفر جانتاتھا نہ آیابعدچند رو ز کے شاہ صاحب کودعوت کے بہانے سے اپنے مکان پربلاناچاہااوراپنے آدمی کے ہاتھ یہ سطر لکھ بھیجی کہ قال النبیؐ الاجابۃ سنۃ موکدۃ آپ نے نیچے لکھ دیاالزیارۃ القادم فاذاتعارضاتساقطا اس نے آپ کی جودت ذہن اورپایۂ علم سمجھ لیا اور ملاقات کے لیے آیا تو اپنے کو بحرذخار کے پہلو میںایک قطرہ پایا پشیمان ہو کرآپ کے ہاتھ پر بوسہ دیا اورعذر کیا مجلہ شیعہ کھجوہ اگست ۱۹۰۸ء میں یہ شعر نمونہ کے طور پر لکھے ہیں     ؎
مطلع ایجاد احمد حسن مطلع بوتراب
ہست بیت اہلیتش شاہ فرد انتخاب
مرتضیٰ آنکہ شہ مسند عالی نسبی ست دیگر
آفتابیست کہ برج شر  فش دوش نبی ست
اورمرغوب دل میںمفتاحالتواریخ کے حوالہ سے تاریخ وفات شاہ صاحب تابع اہل البیت)ممکن ہے ۹۵۲ھ میںانتقال فرمایا اورلاش اقدس آپ کی کربلائے معلی ۱۵۵۹ء میںبھیجی گئی ہو۱؎۔
حاشیہ تفسیربیضاوی عربی:
یہ تحقیقی حاشیہ ہے۔
صاحب طبقات مفسران:
’’شاہ طاہربن رضی الدین اسماعیل حسینی کاشانی ازسادات خاندیہ یکی ازاعیان تفسیری قرن دہم ہجری می باشد اویکی از اکابر علماء امامیہ اثنا عشری از تلامذۂ محمدبن احمدخضری معرفی می نماید کہ در دکن ہند اقامت گزید نظام شاہ وعادل شاہ و قطب شاہ از ملوک ہند از برکت ارشاد او مستبصر شد، ومذہب تشیع را پذیر فتہ اند۱؎۔
صاحب نزہۃ الخواطر:
’’وسافرالی الہند فدخل فی بندرگوا وجاء الی بیجاء پور فلم یلتفت الہ اسماعیل عادل شاہ البیجاپوری فسار الی قلعۃ پریندہ ولقی بہاالشیخ پیرمحمدالذی ارسلہ برہان نظام شاہ الی صاحب القلعۃ بالرسالۃ ماعتقدپیر محمد بفضلہ وکمالہ و قرأ علیہ المجسطی ولما رجع پیر محمد الی احمد نگر ذکرہ عند صاحبہ فطلبہ سنۃ ثمان و عشرین و تسعائۃ واحتقی بہ۔ خطایت لہ الاقامۃ باحمد نگر  و کان یذہب الی قلعۃ احمد  نگر یومین فی کل  اسبوع و یدرس و یحضر العلماء کلہم فی  دروسہ،وکان برہان نظام شاہ ایضاً۔ یحضردروسہ ویستلذ بکلامہ، ولم یزل کذالک حتی مرض عبدالقادر ابن برہان نظام شاہ المذکور و اشرف علی الموت  وکان البرہان مشغوفا بحبہ،فقام الطاہر و بشرہ بالشفاء العاجل لولدہ واخذ العہدعلیہ ان یدعو فی خطب الجمعۃ والاعیاد للائمۃ الاثنا عشر و یروج مذہبہم فی بلادہ،فعاہد برہان نظام شاہ،فلقنہ الطاہر مذہب الشیعۃ من حب ورفض، و تشیع برہان نظام شاہ و معہ اہل بیتہ و خدمہ نحو ثلاثۃ الٓالاف من الرجال والنساء ونال الطاہر ما رامہ من الدعوۃ‘‘
ولہ مصنفات کثیرۃ:
’’منہا شرح الباب الحادی عشر فی الکلام ،و شرح الجعفریۃ فی فقہ الامامیۃ و حاشیۃ علٰی تفسیر البیضاوی و لہ حواشی علی الاشارات والمحاکات والمجسطی والشفاء والمطول وگلشن زار وشرح تحفہ شاہی۱؎‘‘

پندرہویں صدی

پندرہویں صدی
میرزا حسن مصطفوی: آپ کی تفسیر’’تفسیر روشن‘‘ ۳۰جلدوں میں ہے، پہلی جلد ۱۴۰۸ھ میں منظر عام پر آئی جدید اسلوب کی تفسیر ہے جس کا سلسلہ ابھی جاری ہے۱؎۔
شیخ جعفر سبحانی:عالم جلیل القدر استاد سبحانی پندرہویں صدی کے عظیم مفسرین میں سے ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’منشور جاوید‘‘ سب سے پہلی کامل تفسیر موضوعی ہے۔ ا س کی پہلی جلد ۱۴۰۱ھ میں منظر عام پر آئی۔ یہ تفسیر ۱۲جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ علامہ صفدر حسین نجفی لاہوری نے کیا ہے۔ ا س تفسیر میں توحید، نبوت، امامت، قیامت، اخلاق، تربیت جیسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے۔ یہ عہدحاضر کی مقبول ترین تفسیر قرآن ہے۔ خداوند عالم مفسر کو طول عمر عطا فرمائے۔
شیخ ناصر مکارم شیرازی:مرجع عالیقدر، آیت اﷲ العظمی ناصرمکارم شیرازی، استاد ما، آپ کی تفسیر ’’نمونہ‘‘ ۲۷ جلدوں میں اپنی سادگی اور سلاست کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۴۰۰ھ میں منظر عام پر آئی آپ کی دوسری تفسیر موضوعی ’’پیام قرآن‘‘ ہے جو اپنے نھج و اسلوب کے سبب انفرادیت کی حامل ہے۔ علامہ سید صفدر حسین نجفی نے دونوں تفسیروں کو اردو قالب میںڈھالا اور جامعۃ المنتظر لاہور سے شائع کیا۔
میرزا محمد ثقفی تہرانی:فقیہ، اور مفسر قرآن آقای سید ابوالحسن رفیعی کے شاگرد تھے۔ آپ کی تفسیر ’’روان جاوید‘‘ تین جلدوں میں ہے۔ پہلی مرتبہ ۱۳۸۳ھ میں شائع ہوئی۔ آپ کی وفات ۱۴۰۵ھ میں ہوئی۲؎۔
سید علی اکبر قرشی ارموی:آپ کی تفسیر ’’احسن الحدیث‘‘ ۱۲ جلدوں میں ہے۔ یہ تفسیر بنیاد بعثت تہران سے ۱۴۰۷ھ میں شائع ہوئی جدید لب و لہجہ کی تفسیر ہے۔ آپ نے چھ جلدوں میں ’’قاموس قرآن‘‘ بھی تحریر کی ہے۱؎۔
سید عبدالحسین طیب:آپ کی تفسیر ’’اطیب البیان فی تفسیر القرآن‘‘ ۱۴ جلدوں میں ہے۔ ۱۳۹۳ھ میں بنیاد فرہنگ تہران سے شائع ہوئی۲؎۔
سید ابوالقاسم خوئی:مرجع عالی قدر آیت اﷲ العظمی سید ابو القاسم خوئی (م۱۴۱۳ھ) زعیم حوزہ علمیہ نجف اشرف فقہ و اصول کے استاد الکل، علم رجال اور تفسیر میں تبحر کامل رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’البیان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو اپنے مشمولات کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ عوام و خواص میں بیحد مقبول ہوئی۔ اردو، فارسی، انگریزی زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں اور ساری دنیا میں لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ تفسیر مکمل نہیں ہے اس میں مقدمہ قرآن اور سورہ الحمد کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ علم رجال میں آپ کی شاہکار کتاب ’’معجم رجال الحدیث‘ ۲۳ جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔
علی اکبر ہاشمی رفسنجانی:سابق صدر جمہوریہ اسلامی ایران آپ کی تفسیر قرآن ’’راہنما‘‘ ۱۴ جلدوں میں ہے ۱۴۱۴ھ میں شائع ہوئی جدید اسلوب اور نئے لب و لہجہ کی تفسیر ہے۔ مضامین نو، اور عصری تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ خداوند عالم آپ کو سلامت رکھے۔
عبداﷲ جوادی آملی:عارف، سالک، فقیہ اور مفسر عظیم الشان، حوزہ علمیہ قم کے جید اساتذہ میں ہیں۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر موضوعی‘‘ علمی عرفانی اور کلامی نکات پر مشتمل ہے۔ اس کی متعدد جلدیں قم مقدسہ سے شائع ہو چکی ہیں۔ پہلی جلد ۱۴۱۶ھ میں شائع ہو ئی تھی۔ راقم کو حوزہ علمیہ قم میں قیام کے دوران آپ سے اکثر نیاز حاصل ہوتا رہتا تھا۔دوسری تفسیر ’’تفسیر تسنیم‘‘ ہے۔
 محسن قرائتی کاشانی:مبلغ اسلام اور مفسر قرآن آپ کی تفسیر ’’تفسیر نور‘‘ متعدد جلدوں میں ایران سے شائع ہو چکی ہے۔ عصر جدید کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی تفسیر ہے۔ نکات کے ذریعہ تفسیر کا خلاصہ بیان کیا ہے نوجوانوںکے لیے بیحد مفید ہے۔ آپ کے دروس قرآن ریڈیو ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے رہتے ہیں۔
    بحمداﷲ قرآن مجید کی تفاسیر لکھے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ارباب علم و ادب اسرار قرآن کے انکشاف میں مصروف ہیں ہر سال نئی تفسیر منصہ شہود پر آرہی ہے انشاء اﷲ یہ سلسلہ تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔

چودھویں صدی

چودھویں صدی
میرزا محمد باقر لنگرودی:آپ کی تفسیر قرآن مفصلاً ۳۰ جلدوں میں ہے جس کا نام ’’کشف الکشاف‘‘ ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۲۹۶ھ میں مکمل ہوئی۔ اس کا خطی نسخہ کتابخانہ آیت اﷲ مرعشی قم میں محفوظ ہے۔ ۱۳۰۱ھ میں باحیات تھے۱؎۔
سید محمد کاشانی:آپ کی تفسیر ’’کشف التنزیل‘‘ ہے جس میں روایات اہلبیت علیھم السلام کی روشنی میں تفسیر لکھی گئی ہے۔ ۱۳۱۰ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
علی اصغر قائینی بیرجندی:آپ شیخ محمد باقر بیرجندی کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ نے روایات کی روشنی میں تفسیر لکھی۔ ۱۳۲۵ھ میں وفات پائی۳؎۔
سید امیر محمد صادق خوانساری:آپ کی تفسیر ’’ضیاء التفاسیر‘‘ فارسی زبان میں ہے روایات ائمہ کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ آپ کی وفات ۱۳۳۳ھ میں ہوئی۴؎۔
شیخ محمد جواد بلاغی:مفکر، متکلم اور مفسرقرآن آپ کی تفسیر ’’الآء الرحمن‘‘ ہے جو تفسیر سورہ الحمد، بقرہ اور آل عمران پر مشتمل ہے۔ ۱۳۵۲ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔
ڈاکٹر محمد صادق تہرانی:آپ حوزہ علمیہ نجف میں تفسیر قرآن کا درس دیتے تھے۔ تفسیر قرآن پر گہری نظر تھی۔ آپ کی تفسیر ’’الفرقان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو   عراق، لبنان، ایران سے متعدد زبانوں میں چھپ چکی ہے۔ ۱۳۶۷ھ میں وفات ہوئی۵؎۔
شیخ محمد نہاوندی: آپ کی تفسیر ’’نفحات الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘ ۴ جلدوں میں ہے۔ علمی اور تحقیقی تفسیر ہے۔ آپ کی  ۱۳۷۰ھ میں وفات ہوئی۔
شیخ زین العابدین مازندرانی:آپ کی تفسیر ’’تفسیرراھنما‘‘ ۴ جلدوں میں سادہ اور سلیس تفسیر ہے آپ کی وفات ۱۳۸۰ھ میں ہوئی۱؎۔
سید محمد حسین طباطبائی:محقق، متکلم چودہویں صدی کے مفسر کبیر۔ آپ کی معرکۃ الارا تفسیر ’’المیزان‘‘ ۲۰ جلدوں میں ہے۔ جسے ام التفاسیر بھی کہا جاتا ہے۔ ۱۳۹۲ھ میں مکمل ہوئی۔ اس تفسیر کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ مختلف خصوصیات کی حامل تفسیر ہے۔ اس میں تفسیر بالقران کے علاوہ کلامی و فلسفی مطالب کا بھی ذکر ہے۔ روایات ائمہ علیھم السلام کی روشنی میں نتیجہ گیری کی گئی ہے۔ عہدحاضر کی بے مثال اور بے نظیر تفسیر ہے۔ جس کے معیار کی ابھی تک تفسیر نہیں لکھی گئی ۔ کچھ جلدوں کا اردو زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ آپ کی وفات ۱۴۰۲ھ میں ہوئی۔
یعقوب الدین رستگار جویباری:مفکر، محقق اور مفسر قرآن آپ کی تفسیر ’’البصائر‘‘ ۶۰ جلدوں میں ہے۔ عہد حاضر کی مفصل ترین تفسیر ہے جس میں فقہی، کلامی، ادبی، تاریخی، سیاسی ، معاشرتی مطالب زیربحث لائے گئے ہیں۔  آپ قم مقدسہ میں تفسیر لکھنے میں مصروف ہیں۔ ۱۳۹۸ھ میں اس تفسیر کا آغاز فرمایا تھا۔
سید مصطفی خمینی:امام خمینی رحمۃ اﷲ علیہ کے بڑے فرزند تھے۔ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی۔ وہیںدرس دیتے تھے۔ آپ کی تفسیر علمی، عرفانی، کلامی مطالب پر ۴ جلدوں میں ہے۔ یہ تفسیر قم میںشائع ہوچکی ہے۔ ۱۳۹۷ھ میںنجف اشرف میںشہادت پائی۲؎۔

تیرہویں صدی

تیرہویں صدی
علی بن قطب الدین بہبہانی:آپ معاصر علامہ وحید بہبہانی تھے۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر بہبہانی‘‘ تین جلدوں میں ہے ،دوسری تفسیر بغیر نقطہ کی ہے۔ تین جلدوں میں نجف اشرف میں کتابخانہ شیخ محمد سماوی میں محفوظ ہے۔ آپ کی وفات ۱۲۰۶ھ میں ہوئی۱؎۔
سید ابراہیم بن محمد صنعائی:آپ کی تفسیر ’’فتح الرحمن فی تفسیر القرآن بالقرآن‘‘ ہے۔ قرآن مجید کی آیات کے ذریعہ ہی آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ ۱۲۱۳ھ میں وفات ہوئی۔ 
شیخ حسین بن محمد عصفوری بحرانی:آپ کی تفسیر ’’مفاتیح الغیب والتبیان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے۔
علامہ امینی :
’’آپ خواص علماء اور فضلاء محقق میں سے تھے۔ حدیث شناس اور اپنے زمانہ میں ماہر علم رجال تھے۔‘‘
آپ کی شہادت ۱۲۱۶ھ میں ہوئی۲؎۔
سید عبداﷲ شبر: علامہ، محقق جلیل القدر اور مفسر بصیر تھے۔ آپ کی تفسیر ’’صفوۃ التفاسیر‘‘ روایات کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ ۱۲۴۲ھ میں وفات ہوئی۳؎۔
شیخ محمد علی قمشہ ای:۱۱۸۸ھ نجف میںمتولد ہوئے۔ آپ کا شمار مراجع کرام میں ہوتا تھا۔ آپ کی تفسیر ’’البدر الباہر‘‘ ہے۔ ۱۲۴۵ھ میں وفات ہوئی۴؎۔
ملا محمد صالح برغانی:محقق و مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر ’’کنزالعرفان فی تفسیر القرآن‘‘ ۲۷ جلدوں میں ہے۔ یہ تفسیر بارہ کنز پر مشتمل ہے۔ جس کے ذیل میں آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ۱۲۷۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی۱؎۔

بارہویں صدی

بارہویں صدی
سید ہاشم بحرانی:محدث خبیر، مفسر بصیر، آپ کی مشہور تفسیر ’’البرہان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے۔ روایات کے تناظر میں آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ۱۲۹۵ھ میں تہران سے پانچ جلدوں میں شائع ہوئی۔ شیخ حرعاملی نے آپ سے روایات کی ہیں۔ ۱۱۰۷ھ میں وفات پائی۱؎۔
میر محمد خاتون آبادی:آپ مدرسہ جامع عباسی اصفہان میں مدرس تھے۔ آپ کی تفسیر ۱۴ جلدوں میں ہے۔ ۱۱۶۶ ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
میرزا محمد مشہدی:عالم،مفسرکبیر، آپ کی تفسیر ’’کنزالدقائق‘‘ ہے۔ روایات کے ذریعہ آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ ۱۰ جلدوں میں شائع ہوئی۔ محدث نوری فرماتے ہیں کہ
’’یہ تفسیر بہترین اور تمام تفاسیر سے جامع ہے۳؎۔‘‘
۱۱۲۵ھ میں وفات ہوئی۔
سید محمد رضا بن محمد مومن خاتون آبادی:اصفہان کی سادات میں سے تھے۔ علامہ مجلسی کے معاصر تھے۔ آپ کی تفسیر ’’خزائن الاسرار فی تفسیر القرآن‘‘ ہے۔ ۱۱۲۸ھ میں وفات ہوئی۴؎۔
علی بن حسین عاملی:عالم جلیل، محدث شہیر، مفسر نامور۔ آپ کی تفسیر دو جلدوں میں ہے۔ جس کا نام ’’الوجیز فی تفسیر القرآن العزیز‘‘ ہے۔ ۱۱۳۵ھ میں آپ کی وفات ہوئی۵؎۔
فاضل ہندی:بہاء الدین محمد اصفہانی معروف بہ ’’فاضل ہندی‘‘ صاحب ’’کشف اللثام‘‘ آپ کی مبسوط اور مفصل تفسیر ’’البحرالمواّج‘‘ ہے۔ ۱۱۱۳ھ میںمکمل ہوئی۔ منظم اور مرتب تفسیر ہے۔ شیخ ابن سینا اور خواجہ نصیر الدین طوسی کے نظریات بھی بیان کئے ہیں۔ ۱۱۳۷ھ میں وفات ہوئی۱؎۔

گیارہویں صدی

گیارہویں صدی
شیخ مبارک بن خضر یمانی ناگوری:آپ کی تفسیر ’’منبع العیون المعانی‘‘ ہے۔ آپ کا ذکر اس کتاب میں آئے گا۔
شیخ ابو الفضل فیاضی:فاضل، ادیب، محقق اور مفسر قرآن آپ کی تفسیر ’’سواطع الالہام‘‘ بغیر نقطہ کی ’’ صنعت مہملہ میں لکھی گئی ہے۔ مفصلاً ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے۔
قاضی نوراﷲ شوشتری:معروف بہ ’’شہید ثالث‘‘ صاحب ’’احقاق الحق‘‘ و ’’مجالس المومنین‘‘۔ آپ کا ذکر اس کتاب میں آئے گا۔
میرزا محمدبن علی استرآبادی:عالم،فاضل اور مشہور رجالی تھے۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر آیات الاحکام‘‘ ہے۔ فقہی ترتیب کے اعتبار سے آیات کی تفسیر لکھی ہے۔ ۱۰۲۶ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
میر محمد باقر میرداماد:حکیم، فلسفی، محقق، مفسر قرآن اور جامع معقول و منقول تھے۔ آپ کی تفاسیر میں ’’تفسیر سورہ توحید‘‘  ’’تفسیر سدرۃ المنتہی‘‘ مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ فلسفہ میں گرانقدر تالیفات آپ کی یادگار ہیں۔ ۱۰۴۲ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔
ابوالمعالی شوشتری:حکیم، متکلم، فقیہ تھے،قاضی نوراﷲ شوشتری کے فرزند تھے۔
آپ نے تفسیر ’’تفسیرسورہ توحید‘‘ لکھی۔ اس کے علاوہ ’’انموذج العلوم‘‘ آپ کی یادگار ہے۔ ۱۰۴۶ھ میںوفات ہوئی۲؎۔
ملا یعقوب بختیاری : تفسیر ’’صوافی الصافی‘‘ آپ کی یادگار ہے۔ یہ تفسیر ۱۰۴۰ھ میں مکمل ہوئی۔ مفصل تفسیر ہے۔ ۱۰۴۷ ھ میں وفات ہوئی۔
ملا صدرا شیرازی: صدر المتہالین صدرالدین شیرازی مشہور فلسفی، حکیم، محقق نابغۂ روزگار تھے۔ آپ کے فلسفی آثار کے علاوہ قرآن مجید کے متعدد سوروں کی فلسفی کلامی تفسیریں ہیں جن میں سورہ فاتحہ، بقرہ، سجدہ، حدید، اعلیٰ، طارق، نور، زلزال، واقعہ، جمعہ، یس، کافرون، شامل ہیں۱؎۔
سیدامیر معزالدین حیدرآبادی:اردستان سے حیدرآباد وارد ہوئے۔ محمد بن خاتون کے حکم سے تفسیر قرآن لکھی جو سلطان عبداﷲ قطب شاہ کے نام معنون کی۔ ’’تفسیر قطب شاہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ماہ رجب ۱۰۴۴ھ میں مکمل ہوئی۔ ۱۰۵۸ھ میں رحلت کی۲؎
شیخ فاضل جواد:فقیہ عالیقدر، شیخ بہائی کے شاگردوں میں تھے۔ آپ کی تفسیر ’’مسالک الافہام الی آیات الاحکام‘‘ ہے۔ ۱۰۴۳ھ میں مکمل ہوئی۔ دوسری تالیف ’’غایۃ المامول فی زبدۃ الاصول‘‘ ہے۔ ۱۰۶۵ھ میں وفات ہوئی۔
شیخ عبدعلی بن جمعہ حویزی:محدث بزرگ، مفسرعالیشان، معاصر شیخ حرعاملی اور سید نعمت اﷲ جزائری کے استاد تھے۔ آپ کی مشہور تفسیر ’’نورالثقلین‘‘ ہے جو روایات ائمہ علیھم السلام کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ آپ ۱۰۷۳ھ میں حیات تھے۳؎۔
محمد مومن بن شاہ قاسم سبزواری:محقق، متکلم، محدث، اور مفسرقرآن تھے۔ مشہد میں قیام تھا۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر مشہدی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ روایات ائمہ علیھم السلام کی روشنی میں لکھی ہے۔ ۱۰۷۷ھ میں وفات ہوئی۳؎۔
ملا محمد محسن فیض کاشانی:محد ث اور مفسر عظیم الشان تھے۔ آپ کی تین تفسیریں مشہور ہیں۔ تفسیر ’’الصافی‘‘ ’’الاصفیٰ‘‘ ’’المصفیٰ‘‘
تفسیر صافی روایات کی روشنی میں مبسوط تفسیر ہے۔ ’’الاصفی‘‘ تفسیر صافی کا خلاصہ ہے۔ ’’المصفیٰ‘‘ ’’تفسیرالاصفیٰ‘‘ کی تلخیص ہے۔ ۱۰۹۱ھ میں وفات ہوئی۱؎۔

دسویں صدی

دسویں صدی
کمال الدین حسین واعظ کاشفی:سبزوار کے رہنے والے تھے، تیموری دور میں زندگی گذاری۔ آپ کی تفسیر ’’المذاہب العلیۃ فی تفسیر کتاب خالق البریہ‘‘ المعروف ’’تفسیر حسینی‘‘ یہ فارسی زبان کی پہلی تفسیر ہے۔ وزیر کبیر نظام الدین امیر علی شیرنوائی کے لیے لکھی۔ ۹۱۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
شرف الدین الہٰی:عالم، فاضل، جامع معقول و منقول تھے۔ آپ کی تفسیر کو ’’تفسیرالہی‘‘ اور ’’تفسیر اردبیلی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تفسیر فارسی زبان میں ہے صاحب کشف الظنون کا بیان ہے کہ :
’’صفوی دور میں آپ ہی نے سب سے پہلے علوم و معارف اسلامی کے سلسلے میں فارسی زبان میں تصنیف و تالیف کیں۔‘‘
    آپ کی وفات ۹۵۰ھ میں ہوئی۲؎۔
میرابوالفتح حسینی: صاحب کتاب احسن التواریخ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’آپ اعلم، افہم، جامع العلوم تھے اور سادات کرام میں سے تھے۳؎۔ ‘‘
آپ کی تفسیر کا نام ’’تفسیر شاہی‘‘ ہے جس میں احکام سے متعلق آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ ۹۷۶ھ میں وفات ہوئی۔
ملا فتح اﷲ کاشانی: عالم، فاضل اور مفسرقرآن تھے۔ آپ کی تفسیر ’’منھج الصادقین‘‘ فارسی زبان میں ہے۔ قبلاً ۵ جلدوں میں ایران سے شائع ہوئی تھی۔ انتہائی معلوماتی تفسیر ہے ۔ آپ کی وفات ۹۸۸ھ کاشان میں ہوئی۔
مقدس ارد بیلی:فقیہ، محقق، مدقق اور مفسر قرآن۔ زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اشہرالناس تھے۔ عرب و عجم پر مرجعیت رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’زبدۃ البیان‘‘ ہے۔ آیات احکام کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ فقہی ترتیب سے آیات کی تفسیر کی ہے۔ ۱۸ ابواب پر محیط ہے۔ ۹۸۹ھ میں یہ مکمل ہوئی۔ جید علماء نے اس پر حاشیے لکھے ہیں۔ ۹۹۳ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
محمد بن احمد خواجکی حیدر آبادی:مفسر قرآن تھے۔ ان کا ذکر مفصلاً اس کتاب میں آئے گا۔

نویں صدی

نویں صدی
فاضل مقداد:شاگرد شہید اول صاحب ’’باب حادی عشر‘‘فقہ و کلام میں تبحر علمی رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن ۱۳۱۳ھ میں ایران سے شائع ہوئی۔ تفسیر، ’’مجمع البیان‘‘ طبرسی کے نھج پر لکھی ہے۔ آپ کی وفات ۸۲۶ھ میں ہوئی۔ ۱؎
طیفور بن سراج الدین:حافظ، واعظ اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر قرآن روائی نھج پر ہے۔ آیات کے ذیل میں روایات ائمہ علیھم السلام کے ذریعہ تفسیر بیان کی ہے۔ تفسیر فرات کوفی سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ یہ تفسیر بروز غدیر ۸۷۶ھ میں مکمل ہوئی۔ ۸۷۶ھ کے بعد وفات ہوئی۔۲؎
زین الدین بیاضی عاملی: محدث، محقق، ادیب اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر ’’زبدۃ البیان فی مختصر مجمع البیان‘‘ ہے۔ آپ نے علامہ طبرسی کی معروف تفسیر ’’مجمع البیان‘‘ کا خلاصہ کیا ہے۔ ۸۷۷ھ میں رحلت ہوئی۳؎۔
کمال الدین حسن استرآبادی نجفی:آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں کہ آپ کی تفسیر ’’معارج السؤول فی مدارج المعمول‘‘ ہے جس میں احکام کی ۵۰۰ آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔ سال تالیف ۸۹۱ھ ہے۔ ۸۹۱ھ کے بعد وفات ہوئی۴؎۔
شیخ تقی الدین ابراہیم کفعمی:آپ کی تفسیر قرآن ’’المقام الاسنی فی تفسیر الاسماء الحسنی‘‘ ہے۔ جو لغوی، ادبی، عرفانی تفسیر ہے۔ مؤسسہ قائم آل محمدؑ قم سے شائع ہو چکی ہے۔ آپ کی مشہور تالیف ’’المصباح ‘‘ ہے۔ ۸۹۵ھ کے بعد وفات پائی۔

آٹھویں صدی

آٹھویں صدی
عبدالرزاق کاشانی: عارف، محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام’’تاویل الآیات‘‘ ہے جو عرفانی مطالب پر مشتمل ہے۔ شہید ثانی کا بیان ہے کہ
’’ابھی تک ایسی جامع تفسیر تالیف نہیں ہوئی ہے۔‘‘
اس کی تالیف ۲۸؍رمضان ۷۲۹ھ کو مکمل ہوئی۔ ۷۳۵ ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎
کمال الدین ابن عتایقی:آپ کی تفسیر سے متعلق دو کتابیں ہیں:’’الناسخ والمنسوخ‘‘ تلخیص تفسیر علی بن ابراہیم‘‘ آپ عالم، فاضل، محقق تھے۔ علامہ حلی کے شاگردوں کے معاصر تھے۔ آپ نے نھج البلاغہ کی شرح بھی لکھی ۔ ۷۸۸ھ میں باحیات تھے۔۲؎
فخرالدین احمد بن متوج:عالم ، فاضل، ادیب، شاعر تھے۔ شہید اور فخرالمحققین کے شاگرد تھے۔ ابن فہد حلی کے اساتذہ میں شمار کئے جاتے تھے۔ جید الحافظہ تھے۳؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کی دو تفسیروں کا ذکر کیا ہے۔ ’’النہایۃ‘‘ اس میں احکام سے متعلق آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ دوسری ’’الناسخ والمنسوخ‘‘  آٹھویں صدی کے اواخر میں رحلت کی۔
شیخ حسن بن محمد دیلمی:معاصر شہید اول (م ۷۸۶ھ) اکابرین محدثین امامیہ میں سے تھے۔ آپ کی مشہور کتاب ’’ارشاد القلوب‘‘ ہے۔ عالم، عارف، واعظ تھے۔ آپ نے تفسیر قرآن لکھی ۔ آٹھویں صدی کے اواخر میں وفات ہوئی۴؎۔

ساتویں صدی

ساتویں صدی
ابوالحسن علی نیریزی: فقیہ ،محدث، مفسر قرآن تھے۔ حاج خلیفہ نے آپ کی تفسیر ’’مجمع البحرین‘‘ کا ذکر کیا ہے۱؎ ۔ داودی نے آپ کا سال وفات ۶۰۵ھ لکھا ہے۔
سید رضی الدین ابن طاؤوس:خاندان ابن طاؤس کے نامور عالم تھے۔ آپ کی تفسیر ’’سعدالسعود‘‘ تھی۔ آپ کی وفات ۶۶۴ھ میں ہوئی۲؎۔
سید احمد بن طاؤوس: متکلم اور فقیہ اہلبیتؑ تھے۔ محکمات کی تفسیر اور متشابہات کی تاویل کرنے میں بے مثال تھے۔ آپ پہلے عالم تھے جنھوںنے حدیث کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ صحیح، حسن، موثق اور ضعیف۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’شواہدالقرآن‘‘ ہے دوسری کتاب ’’عین العبرۃ‘‘ ہے جس میں اہلبیت کی فضیلت سے متعلق آیات کی تفسیر بیان کی ہے۔
شیخ محمد تقی شوشتری :
’’آپ کی وفات ۶۷۳ھ میں ہوئی، متقی و پرہیزگار عالم تھے۔ ان کے بھائی علی بن طاؤس علامہ حلی کے مشائخ میں تھے۔
ابوزکریا یحییٰ حلی: علامہ حلی کے مشائخ میں سے تھے۔ فقہ میں اعلیٰ استعداد کے حامل تھے۔ آپ کی تفسیر ’’الفحص والبیان‘‘ ہے۔ آپ کی وفات ۶۸۹ھ یا ۶۹۰ھ میں ہوئی۔


چھٹی صدی

چھٹی صدی
ابو علی محمدفتّال نیشاپوری: خطیب، واعظ، فصیح و بلیغ مقرر تھے۔ ابن شہر آشوب نے آپ کی دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ تفسیرمیں ’’التنویر فی معانی التفسیر‘‘ دوسری ’’روضۃ الواعظین‘‘ ہے آپ نے اس تفسیرمیں تفسیر شیخ طوسی ابوالفتوح رازی سے استفادہ کیا ہے۔ ۵۰۸ھ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
۲۔ابوعلی فضل بن حسن طبرسی: مشہور ونامور شیعہ مفسر قرآن، آپ کی تفسیر ’’مجمع البیان‘‘ جامع اور کامل ترین تفسیر ہے۔ جس کی عظمت کا اقرار علماء فریقین نے کیا ہے۔ شہیدثانیؒ نے اس تفسیر کے بارے میں فرمایا ’’اس جیسی تفسیر ابھی تک نہیں لکھی گئی ہے۱؎۔‘‘
ذہبی :
’’یہ تفسیر حسن ترتیب، زیبائش تہذیب، اور دقت تعلیل، قوی حجت و برہان کے اعتبار سے بے مثال ہے۲؎۔‘‘
آپ کی دوسری تفسیر کا نام ’’جامع الجوامع ‘‘ ۴ جلدوں میں ہے۔ آپ کی وفا ت ۵۴۸ھ میں واقع ہوئی۔
سید ضیاراوندی: شیخ منتجب الدین رازی کا بیان ہے کہ
 ’’آپ کمال علم و فضل رکھتے تھے۔ میں نے ان کی تفسیر کو دیکھا اور کچھ حصہ کی میں نے تلاوت بھی کی۳؎۔‘‘
آپ ابن شہر آشوب، شیخ منتجب الدین، شیخ محمد حسن پدر خواجہ نصیرالدین طوسی کے استاد تھے۱؎۔۵۴۹ھ میں رحلت کی۔
 ابوالفتوح جمال الدین رازی: ابوالفتوح شہرری میں رہتے تھے۔ اس لئے آپ کو رازی کہا جاتا ہے۔ آپ کی تفسیر ’’روض الجنان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ فارسی زبان میں ۲۰جلدوں میں شائع ہوئی۔ شیعوں کی اہم ترین تفسیر شمار کی جاتی ہے۲؎۔ ۵۵۶ھ میں آپ کی رحلت ہوئی۔
 قطب راوندی: عالم، فاضل، محقق، متکلم، ادیب تھے۔ ابن شہر آشوب، شیخ منتجب الدین رازی کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’خلاصۃ التفاسیر‘‘ بہترین تفسیر ہے۔ ۵۷۳ھ میں وفات ہوئی۳؎۔
 محمد بن ادریس حلی: کتاب السرائر کے مصنف، فحول العلماء کے لقب سے مشہور تھے۔ فقہ میں تبحر رکھتے تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’مختصرالتبیان من تفسیر القرآن‘‘ ہے یہ تفسیر ۵۸۲ھ میں لکھی گئی۔ ۲جلدوں میں یہ تفسیر کتابخانہ آیت اﷲ مرعشی قم سے ۱۴۰۹ھ میں شائع ہوئی ۔ ۵۹۸ھ میں وفات ہوئی۴؎۔
برہان الدین ابی الخیر حمدانی: شیخ منتجب الدین رازی کا بیان ہے کہ ’’آپ عالم، واعظ اور مفسر تھے۔ تالیفات میں مفتاح التفسیر، دلائل القرآن، عین الوصول و شرح الشہاب شامل ہیں۔ چھٹی صدی کے اواخر میںوفات پائی۔

پانچویں صدی

پانچویں صدی
سید شریف رضیؒ: عالم بزرگوار، ادیب نامور نقیب سادات، جامع نھج البلاغہ۔ آپ کی تفسیر قرآن کا نام ’’حقائق التاویل‘‘ ہے جس میں متشابہ آیات کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ تفسیر ۱۳۵۵ھ میں نجف اشرف سے شیخ عبدالحسین حلی کے مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۴۰۶ھ میں نبیاد نھج البلاغہ تہران سے شائع ہوئی۔ نجاشی نے بھی اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۱؎۔
 محمد بن نعمان مفید: شیخ مفید نامور عالم، فقیہ، متکلم، مفسر قرآن تھے۔ علم کلام میں تبحر رکھتے تھے۔ تفسیر قرآن پر بھی عمیق نظر تھی۔ کئی کتابیں تفسیر سے متعلق ہیں۔ مثلاً: الکلام فی وجوہ، اعجاز القرآن، النصرہ فی فضل القرآن، البیان فی تالیف القرآن، الکلام فی حدوث القرآن، الرد علی الجبائی فی التفسیر، تفسیر آیۂ ’’فاسئلو اہل الذکر۲؎‘‘
۱۱؍ذی قعدہ ۳۳۶ھ میں آپ کی ولادت ہوئی اور شب جمعہ ۳رمضان ۴۱۳ھ میں وفات ہوئی’’عَلَم الہدی‘‘ سید مرتضیٰؒ نے نماز میت پڑھائی۔
سید مرتضیٰ عَلم الہدیٰ: شیخ مفید کے شاگرد تھے۔ فقہ، کلام، ادب میں جید الاستعداد تھے۔ اپنے زمانے میں اعلم الناس تھے۔ نجاشی نے آپ کی متعدد تفسیروں کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر سورہ الحمد وبقرہ، تفسیر آیہ ’’وَلَقد کرمنا بنی آدم و حملنا ہم فی البرّ والبحر‘‘تفسیر آیۂ ’’لیس علی الذین آمنوا و اعملوا الصالحات جناحٌ فی ما طعموا‘‘ کتاب الموضع عن وجہ اعجاز القرآن ۲۵ ربیع الاول ۴۳۶ھ میں وفات پائی۳؎۔
شیخ احمد تیمیمی: فرزند عمار تمیمی اندلسی شیعہ مفسرین میں سے تھے، تفسیر کا نام ’’التحصیل فی مختصر التفصیل‘‘ روش ادبی و کلامی ہے۔ ۴۴۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
ابوسعید سمّان: حافظ، مفسرقرآن سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کے معاصر تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’البستان فی تفسیر القرآن‘‘ ہے جو دس جلدوں میں ہے۔ ۴۴۷ھ میں وفات ہوئی۔
ابوالفتح کراجکی: فقیہ ، متکلم، نحوی، طبیب تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’کنزالفوائد‘‘ ہے۔ آقا بزرگ تہرانی کا بیان ہے کہ یہ تفسیر پانچ جلدوں میں ہے جو علمی اور ادبی نکات پر مشتمل ہے۔ اس کا خطی نسخہ کتابخانہ آستان قدس رضوی میں موجود ہے جس کا سال کتابت ۶۷۷ھ ہے۔ یہ تفسیر ایران سے ۱۳۲۲ھ میں شائع ہوئی۔ ۴۴۹ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
۷۔شیخ طوسی: شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی عالم، فقیہ، متکلم، محدث، مفسرقرآن تھے۔ شیخ مفید اور سید مرتضیٰ کے شاگرد اور حوزہ علمیہ نجف اشرف کے مؤسس تھے۔
آپ کی مشہور اور جامع تفسیر ’’التبیان‘‘ ہے جو دقیق مطالب پر مشتمل ہے جسے علماء نے علوم کا ذخیرہ اور منبع قرار دیا ہے شیعوں کی اہم ترین تفسیر شمار کی جاتی ہے۔ آپ کی وفات ۴۶۰ھ میں ہوئی۔

چوتھی صدی

چوتھی صدی
علی بن ابراہیم قمی: ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینیؒ نے کافی میں آپ سے بہت زیادہ روایتیں نقل کی ہیں۔
 امام حسن عسکریؑ کے ہم عصر اور شیخ کلینی کے مشائخ میں سے تھے ۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر قمی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔ آپ ۳۰۷ھ تک حیات تھے۱؎۔
فرات بن ابراہیم کوفی: آپ کی تفسیر ’’فرات کوفی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس تفسیر میں آیات کے ذیل میں ائمہ علیھم السلام سے مروی روایات نقل کی گئی ہیں۔ مگر سلسلہ روایت محذوف ہے۔ شیخ صدوق نے آپ سے روایتیں نقل کی ہیں۔ ۳۰۷ ھ تک حیات تھے۲؎۔
ابونضر محمد مسعود عیاشی: کشی (۳۲۸ھ) کے مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی تفسیر ’’تفسیر عیاشی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تفسیر دو جلدوں میں علامہ طباطبائی کے مقدمہ کے ساتھ  تہران سے شائع ہوئی۔آپ کی تالیفات ۲۰۰ سے زائد ہیں۔ آپ کی وفات ۳۲۰ھ میں وفات ہوئی۳؎۔
ابو جعفر محمد بن علی جرجانی: فقیہ، متکلم، مفسر تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیاہے۴؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے چوتھی صدی کے اہم مفسرین میں شمار کیا ہے۔ ۳۳۰ھ میں رحلت کی۔
 ابن دُول قمی: آپ کی ۱۰۰ سے زائد تالیفات ہیں، قم کے رہنے والے تھے۔ زرکلی صاحب الاعلام نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ۳۵۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
 محمد بن حسن شیبانی: شیخ مفیدؒ کے استاد تھے۔ آپ کی تفسیر کا نام ’’نھج البیان عن کشف معانی القرآن‘‘ ہے۔ مقدمہ قرآن میں علوم قرآن کی قسمیں،ناسخ، منسوخ، محکم، متشابہ کی وضاحت کی ہے۔ علماء بزرگ نے اس تفسیر سے استفادہ کیا ہے۔ ۳۵۵ھ میں رحلت کی۲؎۔
شیخ صدوق: فقیہ بزرگ تھے۔ ۳۵۵ھ میں وارد بغداد ہوئے۔ وہاں شیوخ سے احادیث سنیں۔ آپ کی تالیفات کی تعداد تقریباً ۱۹۸ ہے۔ جن میں تفسیر قرآن بھی ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے تفسیر کا نام ’’الخاتم‘‘ تحریر کیا ہے۳؎۔ ۳۸۱ھ میں وفات ہوئی۔
 ابو علی محمد اسکافی: فقہ، ادب، تفسیرمیں تبحر رکھتے تھے، آپ کی تفسیر قرآن مشہور ہے۔ ۳۸۱ھ میں رحلت کی۴؎۔
عباد بن عباس طالقانی: آپ کے والد آل بویہ کے وزاء میں سے تھے۔ عمر رضا کحالہ نے معجم المولفین میں آپ کی تفسیر کا نام ’’احکام القرآن‘‘ لکھا ہے۔ ۳۸۵ھ میں وفات ہوئی۵؎۔
۔محمد بن علی جنّی: ابن ندیم نے شیعہ تفاسیر میں ’’تفسیر ابن جنّی‘‘ کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تفسیر کئی جلدوں میںہے۶؎۔ آپ کی وفات ۳۹۰ھ میں ہوئی۔

تیسری صدی

تیسری صدی
ابوالعباس احمد بن اسفر اینی:تیسری صدی کے نامور مفسرقرآن تھے۔ آپ نے تفسیر میں ان آیات کی تفسیر لکھی جو اہلبیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے نے تفسیر کا نام ’’المصابیح فیما نزل من القرآن فی اہل البیت‘‘ لکھا ہے۔۱؎
نجاشی:
 ’’اس تفسیر کی تعریف میں نے احمد بن علی بن نوح سے سنی ہے۲؎۔‘‘
یونس بن عبدالرحمن:امام موسیٰ کاظم و امام رضا کے صحابی تھے۔ نجاشی نے قرآن سے متعلق دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ ۱: تفسیر قرآن۔ ۲: فضل القرآن۔  ۲۰۸ھ میں وفات پائی۳؎۔
 عبدالرزاق ابن ھمام صنعانی: ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں آپ کو محب علیؑ اور مولا کے قاتل کا دشمن تحریر کیا ہے۔ ۲۱۱ھ میں وفات ہوئی۔ ابن ندیم نے قرآن سے متعلق آپ کی ان تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ ’’نظم القرآن‘‘ ، ’’قواعدالقرآن‘‘ ، ’’تفسیر الفاتحہ‘‘ ، ’’الحروف المقطعہ فی اوائل السور‘‘
محمد بن ابی عمیر:امام موسیٰ کاظمؑ کے صحابی تھے۔ تفسیر قمی میں تفسیر آیۂ ’’الحمدﷲ رب العالمین‘‘آپ ہی سے مروی ہے۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے آپ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ تفسیر آیۂ ’’ولو تری اذ فزعوا فلا فوت‘‘ آپ سے منقول ہے۔  ۲۱۷ھ میں رحلت ہوئی۔
ابن فضّال کبیر:فطحی شیعہ، بعد میں توبہ کرکے امامیہ ہو گئے تھے۔ بہت زیادہ عبادت گذار تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی ان تفاسیر کا ذکر کیا ہے۔ ’’‘‘الشواہد من الکتاب‘‘، ’’الناسخ والمنسوخ‘‘  ۲۲۴ ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
محمد بن یقطینی: امام علی نقیؑ کے صحابی تھے۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے ان کی تالیفات کے ذیل میں ’’تفسیر القرآن‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۲۴ھ میں حیات تھے۲؎۔
 حسن بن محبوب: کوفہ کے رہنے والے ، امام علی رضاؑ کے صحابی تھے۔ شیخ طوسیؒ نے بڑے احترام کے ساتھ ان کے حالات لکھے ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ۲۲۴ ھ میں رحلت ہوئی۳؎۔
علی بن مہزیار:امام محمد تقیؑ اور امام علی نقی کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات کی تعداد ۳۳ ہے۔ قرآنیات سے متعلق ’’حروف القرآن‘‘ ہے۔  ۲۲۹ ھ کے بعد وفات ہوئی۴؎۔
ابوعبداﷲ محمد برقی:امام محمد تقی کے صحابی اور نواح قم کے رہنے والے تھے نجاشی نے تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔  ۲۳۰ھ میں وفات پائی۵؎۔
 حسن بن اہوازی: حسین بن سعید اھوازی کے بھائی تھے۔ تفسیر القرآن کے علاوہ ۳۰ سے زائد تالیفات تھیں۔ ۲۴۰ھ میں وفات ہوئی۶؎۔
 ابو عبداﷲ سیاری بصری: امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات میں ’’ثواب القرآن‘‘، ’’کتاب القرأت‘‘، ’’النوادر‘‘، ’’الغارات‘‘ شامل ہیں۔ ۲۴۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
بکر بن محمد مازنی: تیسری صدی کے مفسر تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی ’’کتاب فی القرآن الکریم‘‘ کا ذکر کیا ہے۔  ۲۴۸ھ میں وفات پائی۲؎۔
 ابو جعفر محمد بن اورمہ قمی: نجاشی نے آپ کی ۳۶کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں ’’کتاب تفسیر القرآن‘‘ بھی شامل ہے۔ تفسیر قمی میں آپ سے مروی تفسیر موجود ہے۔ ۲۵۰ھ میں وفات ہوئی۳؎۔
ابو جعفر محمد بن علی بن عبدک جرجانی: جلیل القدر فقیہ، متکلم، صحابی تھے۔ نجاشی نے کتاب تفسیرقرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۵۰ھ میں رحلت ہوئی۴؎۔
فضل بن شاذان: عالی مرتبت متکلم، فقیہ اور صحابی تھے۔ نجاشی نے ۱۸۰ تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ جس میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے۔ ۲۶۰ھ میں وفات پائی۵؎۔
 علی بن حسن فضّال: معتبر بزرگ تھے۔ آقا بزرگ تہرانی نے توصیف و تمجید کے بعد تفسیر کا ذکر کیا ہے جس کا نام ’’کتاب التنزیل من القرآن والتحریف‘‘ ہے ابن عقدہ اور ابن زبیر نے آپ سے روایت کی ہے۔ ۲۷۰ھ میں وفات ہوئی۶؎۔
 ابوالاسحاق ثقفی: زیدیہ فرقہ سے تعلق تھا۔ پھر امامیہ ہو گئے ۔ کوفہ سے اصفہان میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ’’کتاب مانزل من القرآن فی امیرالمومنین‘‘ اور ’’کتاب التفسیر‘‘ ۲۸۳ھ میں رحلت کی۱؎۔
 حسین بن سعید اہوازی: امام رضا امام محمد تقیؑ امام علی نقیؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی ۵۰ سے زائد تالیفات تھیں۔ جس میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے۔ ۳۰۰ھ میں وفات ہوئی۲؎ ۔
۱۹۔حسن بن موسیٰ نوبختی: تیسری صدی کے شیعہ اکابرین میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کی مشہور تالیف ’’التنزیہ و متشابہ القرآن۳؎‘‘ ہے۔ ۳۰۰ھ  میںوفات پائی۔
۲۰۔ ابوعبداﷲ غاضری: معتبر اور موثق مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے ’’کتاب التفسیر۴؎‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۳۰۰ھ میں رحلت کی۔
حسّان رازی: نجاشی نے کتاب ’’ثواب انّا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘ اور کتاب ’’ثواب القرآن‘‘۵؎ کا ذکر کیا ہے۔
محمد بن محمد حارثی: جید شیعہ علماء میں شمار ہوتا تھا۔ نجاشی نے کتاب نوادر علم القرآن اور کتاب الامامۃ کا ذکر کیا ہے۶؎۔

دوسری صدی

دوسری صدی
مجاہدبن جبر:علم تفسیر میںاعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ تیس بار عبداﷲ بن عباس کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ صاحب معجم المؤلفین نے آپ کو مفسر قرآن لکھا ہے اور ان کی تفسیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ مکہ کے رہنے والے تھے۔ ۲۱ ہجری میں متولد ہوئے اور ۱۰۴ھ میں حالت سجدہ میں وفات ہوئی۔ ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ آپ کی عمر ۸۳ سال تھی۔
طاؤس بن کیسان یمانی:ابوعبدالرحمن طاؤوس بن کیسان یمانی تابعی، صحابی امام زین العابدین علیہ السلام داودی نے لکھا ہے کہ ’’طاوؤس اہل علم و عمل میں سے تھے۔
حضرت رسول اﷲ کے ۵۰ اصحاب کی صحبت اختیار کی۔ ۴۰ بار زیارت بیت اﷲ سے مشرف ہوئے۔ مستجاب الدعوات تھے۔‘‘ ابن تیمیہ نے تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اعلم الناس تسلیم کیا ہے۔ ۷؍ذی الحجہ ۱۰۶ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎
عطیہ بن سعد عوفی:مشہور مفسر قرآن اور امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں تھے۔ نجاشی نے بلاذری سے نقل کیا ہے کہ عطیہ، ابان بن تغلب کے استاد تھے۔ پانچ جلدوں میں تفسیر لکھی۔ ’’تین مرتبہ قرآن بصورت تفسیر، ابن عباس کے سامنے پڑھا۔اہلبیت علیہم السلام کے شیدائی تھے۔
آقا بزرگ تہرانی :
’’عطیہ صاحب تفسیر تھے۔ ابان بن تغلب، خالد بن طھمان اور زیاد بن منذر کے استاد تھے۔ ۲؎  ۱۱۱ھ میں وفات ہوئی۔‘‘
زید بن علی الشہید:امام زین العابدین کے فرزند تھے نامور مفسر قرآن،شجاع بہادر، سخی اور مجاہد تھے۔ آپ نے کتاب قرأت کو اپنے جد حضرت امیرالمومنین سے روایت کیا ہے۔ ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں اپنے جد کے خون کا بدلہ لینے کے لیے قیام کیا۔ماہ صفر میں ۱۲۱ھ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
ابو محمد اسماعیل سدی: امام سجاد اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھم السلام کے صحابی اور کوفہ کے رہنے والے تھے۔ داؤدی کا بیان ہے کہ آپ نے ابن عباس، انس اور جمعی سے روایت کی ہے۔ طبقہ چہارم میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ۱۲۷ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎
جلال الدین سیوطی :
’’اسماعیل سدی نے اپنی تفسیر کی اسناد ابن مسعو د اور ابن عباس سے نقل کی ہیں۔ یہ تفسیر بہترین اور کامل تفسیر ہے۔۲؎‘‘
جابر بن یزید جعفی: آپ کا شمار دوسری صدی کے نامور تابعین میں ہوتا ہے۔ امام محمدباقرؑ کے خاص شاگرد تھے، انھیں سے درس تفسیر لیا ۔ ۱۲۸ھ میں وفات ہوئی۔
نجاشی لکھتے ہیں:
’’ابو جعفر جعفی عربی الاصل تھے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کا زمانہ درک کیا۔ ۱۲۸ھ میں وفات ہوئی، آپ کی تالیفات میں تفسیر قرآن کے علاوہ ’النوادر ‘، ’الفضائل‘، ’الجمل‘، ’الصفین‘، ’النہروان‘، ’مقتل امیر المومنین‘، مقتل الحسین‘ ہیں۔۳؎‘‘
یحییٰ بن یعمر:دوسری صدی کے مشہور قاری، لغت شناس تابعی تھے۔ علم و معارف ابوالاسود دوئلی سے حاصل کیا۔ ابن خلکان کا بیان ہے کہ ’’آپ علم تفسیر کے بزرگ عالم تھے۔ عبداﷲ بن اسحاق، اور شیعیانی کے مشائخ میں سے تھے۔ محبت اہل بیت کے سبب۔ حجاج نے خراسان جلا وطن کر دیا تھا۔ ۱۲۹ھ میں وفات ہوئی۔‘‘۱؎
ابن ابی شعبہ حلبی:امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی، مفسر اور فقیہ تھے۔
صاحب معجم رجال الحدیث لکھتے ہیں کہ حلب میں تجارت کرنے کی وجہ سے حلبی مشہور ہوئے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ آپ ہی سے تفسیر آیۂ ’’رب اغفرلی ولوالدی و لمن دخل بیتی مومناً‘‘ تفسیر قمی میں نقل ہوئی ہے۔۱۳۵ھ میں وفات ہوئی۲؎
زید بن اسلم عدوی:امام زین العابدین کے صحابی تھے۔ شیخ طوسی نے فہرست رجال میں امام صادق کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تفسیر خط سکریّ میں ہے۔ آپ کی وفات ۱۳۶ھ میں ہوئی۳؎۔
داؤد بن ابی ہند:امام محمد باقرؑ کے صحابی اور نامور مفسر قرآن، تابعی تھے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا تذکرہ کیا ہے۴؎۔ صاحب الذریعہ آقا بزرگ تہرانی نے تفاسیر شیعہ میں آپ کی تفسیر کوشمار کیا ہے۵؎۔  ۱۳۹ھ میں مکہ کے راستہ میں وفات ہوئی۔
ابان بن تغلب:امام زین العابدین امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام کا زمانہ درک کیا، ان کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور احادیث بھی نقل کیں۔ تفسیر و علوم قرآنی میں تبحر رکھتے تھے۔
نجاشی:
’’کان قاریاً من وجوہ القراء فقیہا لغویاً سمع من العرب و حکی عنہم‘‘۱؎   
محمد بن عبداﷲ شافعی کا بیان ہے کہ ’’ابان اہل علم و فن کے پیشوا ہیں جن میں قرآن، فقہ، حدیث، ادب، لغت، نحو جیسے علوم شامل ہیں۔ آپ کی دو کتابیں  ’’تفسیر غریب القرآن‘‘ اور کتاب ’’الفضائل‘‘ مشہور ہیں۔۲؎
 صاحب ’’تاسیس الشیعہ‘‘ کا بیان ہے کہ ’’ابان ہی نے سب سے پہلے معانی قرآن کے سلسلے میں کتاب لکھی۔ ۱۴۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی۳؎۔
محمد بن سائب کلبی:امام محمد باقر اور امام صادق کے اصحاب میں تھے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں علوم قرآن سے متعلق کتابوں میں ’’آیات الاحکام کلبی‘‘ کا ذکر کیا ہے۴؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں کہ : ’’آپ امام جعفر صادق کے خاص شیعوں میں تھے۔ مفسر اور کوفہ کے مشہور نساب تھے۔ اور آپ نے تفسیر قرآن لکھی۔  ۱۴۶ھ میں وفات ہوئی۵؎۔
ہشام بن سالم: امام جعفر صادقؑ اور امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ نجاشی نے آپ کو ثقہ تحریر کرتے ہوئے تین تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ (۱)تفسیر قرآن (۲) کتاب الحج (۳) کتاب المعراج۱؎ ہشام نے امام جعفر صادق سے ’’کامل الزیارات‘‘ نقل کی ہے۔ ۱۴۸ھ میں وفات ہوئی۔
اعمش کوفی:امام جعفر صادقؑ کے صحابی اور مفسر قرآن تھے، کوفہ میں رہتے تھے اور ۵۰ااحادیث کے راوی ہیں۔ ۱۴۸ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
اسماعیل سکونی:امام صادق کے صحابی تھے اور علم تفسیر میں مہارت رکھتے تھے۔ نجاشی نے رجال میں ان کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر قمی میں تفسیر آیہ سورہ نحل ’’اِنَّ اﷲ یا مربالعدل والاحسان‘‘انہی سے مروی ہے۳؎۔
ابو خالد کابلی:امام زین العابدین اور امام محمد باقر کے صحابی تھے تفسیر قمی میں تفسیر آیۂ سورہ قصص’’اِنَّ اﷲَ فرض علیک القرآن لراّدک الی معاد‘‘ آپ ہی سے مروی ہے۴؎۔
وہیب بن حفص:امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظمؑ کے چاہنے والے ،  ثقہ اور مورد اعتماد تھے۔ آپ کی دو تالیفات ’’تفسیر قرآن‘‘ ’’شرائع و احکام‘‘ منظم و مرتب ہیں۵؎۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۔
ابو حمزہ ثمالی:کوفہ کے رہنے والے تھے۔ امام زین العابدین سے امام موسیٰ کاظم تک چار اماموں کی زیارت کا شرف حاصل تھا، ابن ندیم نے الفہرست میں اور ثعلبی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی جو آپ سے مروی ہے بہت مشہور ہے، کتاب النوادر اور رسالہ الحقوق آپ کی یادگار ہیں۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
منخل بن جمیل اسدی:صحابی امام جعفر صادق اور مفسر قرآن تھے۔ تفسیر قمی میں تفسیر سورہ نور آپ سے مروی ہے۔ نجاشی نے تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی۔
حسن بن واقد مروزی:امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیف ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے ابن ندیم کے حوالے سے دوسری تالیف ’’الرغیب فی علوم القرآن‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
 محمد بن فرات:صحابی امام محمد باقر اور مفسر قرآن تھے۔ اصبغ بن نباتہ سے روایت نقل کی ہے۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے مفصل حالات تحریر کئے ہیں۔
 ابن کثیر ھاشمی:امام جعفر صادقؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات میں ’’کتاب فضل سورۃ القدر‘‘، کتاب ’’صلح الحسن‘‘ ، کتاب ’’فدک‘‘ اور کتاب ’’الاظلہ۳؎‘‘ مشہور ہیں۔۱۵۵ھ میں وفات ہوئی۔
 حمزہ بن حبیب زیات:دوسری صدی کے ’’امام القرأ‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی تالیفات ’’متشابہ القرآن‘‘ ’’مقطوع القرآن‘‘ اور ’’کتاب القرأت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔  ۱۵۶ھ میں وفات ہوئی۴؎۔
ابن شعبہ حلبی:ابو جعفر محمد بن علی بن ابی شعبہ حلبی۔ دوسری صدی کے معتبر مفسر قرآن تھے۔ تفسیر قرآن کے علاوہ احکام فقہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ آپ سے مروی امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کے گریہ کی روایت کامل الزیارات میں نقل کی گئی ہے۔ ۱۶۰ھ میں رحلت فرمائی۱؎۔
 مالک بن عطیہ:امام جعفر صادقؑ کے صحابی، کوفہ کے رہنے والے تھے۔ نجاشی نے موثق اور مورد اعتماد تحریر کیا ہے۔ سورہ یٰس کی تفسیر آپ سے مروی ہے۔ تفسیر قمی میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ۱۶۰ھ میں رحلت فرمائی۲؎۔
ابو جنادہ سلولی:امام جعفر صادق و امام موسیٰ کاظم کے صحابی تھے۔ نجاشی لکھتے ہیں کہ:
’’ان کی تفسیر ’’ تفسیر والقرأت‘‘ ہے۔ مبسوط تفسیر ہے جس کی سند تین واسطوں سے نقل کی گئی ہے۔۳؎‘‘
ابن ندیم نے شیعیان متقدمین میں شمار کیا ہے اور ان کی تالیفات میں کتاب التفسیر اور کتاب جامع العلم کا ذکر کیا ہے۴؎۔۱۸۰ ھ میںرحلت فرمائی۔
علی بن ابی حمزہ سالم بطائنی:صحابی امام موسیٰ کاظمؑ، نجاشی نے تفسیر قرآن کے علاوہ کتاب فضائل القرآن، القائم الصغیر، کتاب الرجعہ، کتاب فضائل امیرالمومنین، کتاب الفرائض کا بھی ذکر کیا ہے۵؎۔
 محمد بن خالد برقی: امام علی رضا اور امام محمد تقی کے صحابی تھے۔ نجاشی نے تفسیر قرآن کے علاوہ، کتاب مکہ و مدینہ، جنگھای اوس و خزرج، العلل، علم الباری کا بھی ذکر کیا ہے۱؎۔ ۱۸۳ھ میں رحلت فرمائی۔
ابوالحسن علی بن حمزہ بن عبداﷲ کسائی:مشہور نحوی تھے۔ اطراف کوفہ میں متولد ہوئے۔ عاشق اہلبیتؑ تھے۔ قرأت اور تفسیر میں تبحر رکھتے تھے۔
زرکلی نے الاعلام میں معانی القرآن، المصادر، الحروف، القرأت، النوادر، المتشابہ فی القرآن کا ذکر کیا ہے۲؎۔ ۱۸۹ھ میں رحلت ہوئی۔
 سفیان بن عیینہ: رجال طوسی میں آپ کو امام جعفر صادقؑ کا صحابی شمار کیا گیا ہے۔ مکہ میں قیام تھا۔ ۹۱ سال کی عمر میں ۱۹۸ھ میں رحلت کی۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۳؎۔
 دارم بن قبیصہ:امام علی رضاؑ کے صحابی تھے۔ قرآن کے موضوع پر دو تالیفات  ۱: الوجوہ والنظائر ۔ ۲: الناسخ والمنسوخ آپ کی یادگار ہیں۔ نجاشی نے تین واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔  ۲۰۰ھ۴؎میں رحلت کی۔
 ابن اسباط کندی:امام رضاؑ اور امام محمد تقیؑ کے صحابی تھے۔ نجاشی نے کتاب التفسیر کے علاوہ الدلائل، المزار، النادر کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت فرمائی۵؎۔
 ابو صلت قمی: امام رضاؑ کے صحابی اور امام محمد تقیؑ کے وکیل تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں وفات پائی۔۶؎
 ابن یسار بصری: امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے صحابی تھے۔ امام باقر سے آیۂ ’’یوم ندعو کل اناس باما مہم ‘‘کی تفسیر نقل کی ہے۔ کامل الزیارات میں ثواب زیارت رسول خداؐ آپ سے مروی ہے۔ ۱۴۷ھ میں وفات پائی۱؎۔
 محمد بن علی بن ابی شعبہ: دوسری صدی کے نامور مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔  ۱۹۵ھ میں رحلت کی۲؎۔
معلی بن محمد بصری: امام موسیٰ کاظم کے صحابی تھے۔ علامہ کلینی اور ابن قولویہ نے آپ کی روایات نقل کی ہیں۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا بھی ذکر کیا ہے۔  ۲۰۰ھ میں رحلت کی۳؎۔
احمد بن صبیح: ابو عبداﷲ احمد بن صبیح اسدی کوفی مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے آپ کی تالیفات میں ’’کتاب التفسیر‘‘ اور ’’النوادر‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت پائی۴؎۔