Sunday 3 March 2013

ابوالفیض، فیضی(م ۱۰۰۴ھ)

ابوالفیض، فیضی(م ۱۰۰۴ھ)
گیارہویں صدی کے قابل فخر مفسرن قرآن آپ کا تخلص فیضی اورفیاضی تھا۔ شیخ مبارک ناگوری کے سب سے بڑے فرزند تھے۔بچپن سے ذہین وفطین تھے۔ ۹۵۴ھ/۱۵۴۷ء آگرہ میں متولد ہوئے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی اور کم سنی میں فارغ التحصیل ہوکر درجۂ کمال پر پہنچے جس کااعتراف خود فیضی نے اپنے دیوان کے آغاز میں کیا ہے۔
’’ولی نعمت من پدر حقیقی و خدائی مجازی استکہ از ریحان طفولیت کہ عقل ہیولانی در شتم صور معنی بمن والی  نمود قریحہ جامدہ رابہ بلندی راہمنون شد۔‘‘
شیخ کو مختلف علوم وفنون میں مہارت تھی۔ شعر،معمہ گوئی، علم عروض وقوافی،تاریخ،لغت،طب،انشاء علم ہیئت،ہندسہ میں ملکہ حاصل تھا۔عربی ، فارسی،سنسکرت زبانوںمیں مہارت تامہ رکھتے تھے۔فیضی جب بڑے ہوئے تو تلاش معاش میںاپنے والد کے ہمراہ شیخ عبدالنبی صدرالصدور کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے منصب کے طلبگار ہوئے شیخ عبدالنبی ان کے والد سے خلش رکھتے تھے۔ اس لیے انھوںنے ان پراور ان کے والد شیخ مبارک پر شیعیت کا الزام لگا کر دونوں کواپنی مجلس سے باہر نکال دیا۱؎۔
یہی نہیں بلکہ شیخ عبدالنبی اورمخدوم الملک نے ان کی بادشاہ سے شکایت کی جس کے نتیجہ میںشیخ مبارک اور ان کے لڑکوں کو آگرہ چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔
۹۷۵ھ/۱۵۶۷ء میں فیضی اپنی شاعری کی بدولت دربار شاہی میں باریاب ہوئے اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی وہ جب دربار میںپہنچے توایک نقرئی پنجرہ کے پاس سے جہاںوہ کھڑے تھے برجستہ قطعہ کہا
بادشاہان درون پنجرہ ام
از سر لطف خود مراجادہ
زانکہ من طوطی شکر خوائم
جائے طوطی درون پنجرہ بہ
فی البدیہ قطعہ بادشاہ کو بہت پسند آیا اس نے فوراً اسے اپنے قریب بلایا۔ اسی روز سے فیضی کو اکبر سے تقرب حاصل ہوا۔ اس کے چند روز بعد اس نے ڈھائیسو اشعار پرمشتمل ایک پرزور قصیدہ بادشاہ کی شان میں کہا جس کا مطلع   یہ ہے
سحر نویدرسان قاصد سلیمانی
رسید ہم چو سعادت کشادہ پیشانی
اکبربادشاہ کے دل میں روز بروزفیضی سے محبت بڑھتی چلی گئی۔جب بھی وہ کسی مہم پرجاتا فیضی کو ساتھ لے کر جاتا۔۹۸۲ھ/۱۵۷۴ء میں بنگال کی مہم میںبھی وہ اکبرکے ہمراہ تھے۔فیضی اپنی گوناگوں صلاحیتوںکی بنا پر سلطنت کے انتظامی امور ومعاملات میں دخیل ہوگئے نورتن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
اکبر نے فیضی کی ادبی اعلیٰ صلاحیتوں کودیکھ کر ’’ملک الشعرائ‘‘کاخطاب دیا۱؎۔
ابوالفیض فیضی کوائمہ علیھم السلام سے خاص عقیدت تھی۔ان کا ذکر منقبت میںانتہائی عقیدت واحترام سے کیا ہے۔منقبت میںچودہ اشعار میں بارہ اماموں کانام لے کر مدح سرائی کی ہے آخر میںکہتے ہیں۔
فیضی نشودخاتمۂ مابہ ہدایت
گرختم امامان ھدیٰ را نہ شناسیم۲؎
تفسیرسواطع الالھام:
یہ تفسیر  فیضی کا عظیم الشان علمی کارنامہ ہے جوغیر منقوط تفسیر ہے۔جس سے فیضی کی عربی زبان پر گرفت اور عربی لغت پر عبور کااندازہ ہوتاہے۔ فیضی نے تفسیر لکھنے سے پہلے بطور مشق علم اخلاق میں ’’مواردالکلم‘‘ کتاب صنعت مہملہ میں لکھی ۔ فیضی کو اس صنعت میں نثر ونظم دونوں میں مہارت حاصل تھی۔
اس تفسیر کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں نولکشور لکھنؤ سے ۱۳۰۶ھ/۱۸۸۹ ء میں شائع ہوئی اس کے علاوہ ایران سے بھی طبع ہوچکی ہے۔
یہ تفسیر دو سال کی مدت میں بتاریخ ۱۰؍ربیع الثانی ۱۰۰۲ھ بروز دو شنبہ مکمل ہوئی۔ڈاکٹر حامد علی خاں لکھتے ہیں: فیضی نے تفسیر کے آخر میں تتمہ لکھا جس میں خداوند عالم کی توصیف اور حضرت رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ و سلم کی تعریف تحریر کرکے والد کے لیے دعائے مغفرت کی ۔تتمہ کی عبارت کو پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ فیضی کو تاریخ گوئی کے فن میں بھی اعلیٰ قدرت تھی۔خاتمہ میں ننانوے جملے ہیں جن میںسے چورانوے جملوں سے ایک ہزار دوہجری تاریخ برآمد  ہوتی ہے:
’’الحمدﷲمحصل المرام لکمل سواطع الالہام۔الہم المحرر و حدہ لا طراء اُسّ الکلام۔واﷲمسرّد الامور ومسہّل کمل المہام۱؎‘‘
ترجمہ: اس اﷲ کی تعریف جو مقصد و مراد کو پورا کرنے والا ہے کہ تفسیر ’’سواطع الالھام‘‘کی تکمیل ہوئی محررکو اﷲ کی طرف سے الہام ہوا کہ وہ اﷲ کے کلام کے اساسی مفہوم کو بطور احسن بیان کرے۔اﷲ امور کو اچھے طریقے سے انجام دینے والا اور مشکل ترین مہموں کوآسان بنادینے والاہے۔ فیضی نے آخرمیں بہ ترتیب حروف تہجی مشکل الفاظ کی فہرست درج کی ہے۔ تفسیر دیکھنے کے بعد ہم عصر علماء نے منظوم ومنثورتقریظیں لکھیںنولکشور لکھنؤ سے طبع ہونے والے نسخہ میں کچھ تقاریظ چھپی ہیں۔ جن میں قاضی نوراﷲ شوشتری معروف بہ شہید ثالث نے بھی بغیر نقطہ کے تقریظ تحریر کی۔ سید محمد حسینی، فضیل بن جلال کالپوری، محمدیعقوب صیرفی کشمیری،عبدالعزیز، احمد بن مصطفیٰ شریف، امان بن غازی قابل ذکر ہیں۔
ملاظہوری ترشیری نے صنعت مہملہ کے محاسن میں ایک زبردست قصیدہ اور تقریباً سترہ رباعیاں لکھیں۔ میر حیدر معمائی کاشانی نے سورہ اخلاص سے ’’سواطع الالھام‘‘ کی تاریخ نکالی فیضی اس تاریخ سے اسقدر خوش ہوئے کہ انھوںنے میر حیدر کو دس ہزار روپیہ بطور انعام دئیے۔ سواطع الالھام کی ایک عمدہ تاریخ ’’لارطب ولا یابس الافی کتاب مبین‘‘ ہے۱؎۔
بادشاہ اکبر نے اس تفسیر کو دیکھ کر فیضی کو دس ہزار روپیہ بطور انعام دئیے۔
مولانا غلام علی آزاد بلگرامی:
’’شیخ فیضی کی علمی لیاقت و فضیلت کی دلیل ان کی قرآن پاک کی بے نقطہ تفسیر ’’سواطع الالھام‘‘ ہے۔ ایسی تفسیر اس سے قبل ایک ہزار سال کی مدت میں کسی عالم یا مصنف کو لکھنا نصیب نہیںہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسے دشوار کام کا انھوںنے صرف دو سال کی مدت میں تکملہ کر دیا۲؎۔ ‘‘
ملا عبدالقادر بدایونی نے فیضی کے عقائد کا مذاق اُڑایا اور انھیں راہ راست سے بھٹکا ہوا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ یہ سب کچھ شیعہ دشمنی کے سبب تھا۔ اگر فیضی کے عقائد خلاف شریعت ہوتے تو اس کا اظہار ان کی تحریروں سے ہوتا پھر انھیں تفسیر قرآن لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
مولانا محمد حسین آزاد:
’’زبانی باتوں میں ملا صاحب جو چاہیں کہیں مگر نفس مطالب میں جب نہ اب کوئی دم مار سکتا ورنہ ظاہر ہے کہ وہ بے دینی اور بد نفسی پر آجاتے تو جو چاہتے لکھ جاتے انھیں ڈر کس کا تھا۱؎۔‘‘
علامہ شبلی نعمانی:
’’فیضی نے تفسیران واقعات کے بعد لکھی ہے لیکن ایک ذرہ مسلمات کی شاہراہ سے نہیں ہٹا حالانکہ تفسیر میں ہر قدم پر اس کو آزاد خیالی دکھانے کا موقع حاصل تھا۔ ملا صاحب تو فرماتے ہیں کہ وہ تمام عقائد اسلام کا منکر تھا لیکن وہ ان تمام عقائد کا معترف نظر آتا ہے جن کو معتقدات عوام کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فیضی کی مذہبی آزادی ہم جو کچھ سنتے ہیں زبانی سنتے ہیں تصنیفات میں تو وہ ملائے مسجد ہی نظر آتے ہیں۔۲؎‘‘
تفسیر کی خصوصیت:
یہ تفسیر جامع و مانع ہے۔ محدود الفاظ میں وسیع مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نمونہ تفسیر:سورہ کوثر   بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’لما رحل ولد رسول اﷲ صلعم و ادر کہِ السلام و سمعہ العاص و کلم و ہو عسور لا ولد لہ لو ادر کہ السام ہلک و حسم اسمعہ صلعم ارسل اﷲ اِنَّا اَعْطَیْنَکَ محمد الکوثر العطاء الکامل علماً و عملاً و المورد الامرء ماء والا حمد ہداء و ورد ماء المدام و ہو مورد رسول اﷲ صلعم اعطاہ اﷲ صلعم کرما او المراد الا ولاد او علماء الاسلام او کلام اﷲ المرسل فَصلِّ دواماً لِربک اﷲ لا لما سواہ کما ہو عمل مرء مراء عمد الاسہواً وَ انْحر و اسرح ﷲ واعطہ اہل السوال وہو عکس الکلام الاول المصرح لا حوال اہل السہو و الصد و اعمالہم ان شَانِئَکَ عدوک ہوا الابتر المعدوم لا ولد لہ و ادام اﷲ اولادک و مراسم او امرک و مکارم عصرک و محامد مراسمک‘‘
فیضی نے تفسیر میں لغوی بحث بھی کی ہے
’’الاسم اصلہ سمؤ کعلم و مصدرہ السمّو وہوالعلو واحد سماء و ورد اُسُمٌ وَسِم وَ سمٌ اُوہم اسمہ اعلمہ و الموسم المعلم والاسم العلم والاول اصح لعدم و رود الاسام مکسّرا‘‘
فیضی نے ہر ایک سورہ کا مکی یا مدنی ہونا ’’موردھا ام الرحم و مورد ھا مصر رسول اﷲ کہہ کر بتایا ہے ۔
آپ نے مختلف علماء کے اقوال نقل کرکے اپنے خیال کا بھی اظہار کیا ہے۔
مالک یومٍ دین ’’رود ملک و ہوالاصح لما ورد کل مالکٍ ولا عکس فکل مالکٍ مامور ملکٍ لا عکسہ۔‘‘ ہر سورہ کے شروع میں اس سورہ کا مفہوم بطور خلاصہ بھی لکھا ہے۔
سورۃ البقرہ: ’’سمّوہا لورود احوالہا و محامد اطوار ہا وسطوع اسرار ہا علاء امورہا مماطال کلامہ‘‘ سورہ بقرہ کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ گائے کے حالات اس کے طور طریقوں کی تعریف اس کے اسرار  و اموز کی رفعت اور اس کے ایسے امور کی بلندی کا ذکر ہے جس کے لیے تفصیلی کلام درکار ہے۔
ابوالفیض نے تفسیر کا آغاز ان جملوں سے کیا
’’اﷲ لا الہ الاہو لا اعلمہ ماہو وما ادرکہ کما ہو احامد المحامد و محامد الا حامد اﷲ مصعد لو امع العلم و ملہم سواطع الالھام‘‘
 اس کے بعد دعا کی پروردگارا اس کام کو آسان فرما۔ اور اپنی تعلیم و تربیت کا ذکر کرتے ہوئے شہر کی تعریف بیان کی علما کی مجلسوں، مساجد، مدارس دیگر عبادت خانوں کا ذکر کیا۔ اس کے بعد بادشاہ کی تعریف کی اس کا نام اور فضائل اسی صنعت مہملہ میں تحریر کئے ہیں۱؎۔
اپنے والد شیخ مبارک اور بھائیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ چونکہ ہر نام میں نقطے ہیں اس لیے معموں سے کام نکالا والد کا ذکر اس طرح ہے ’’وہو اساس العلم واصل الروع و مطلع الالھام و راس الرؤس و امام الکرام۲؎‘‘
صاحب طبقات مفسران شیعہ:
’’در دیار ہند یکی از عجائب و غرایب جہان خلقت و از شاہکار ہا طبیعت وصناعت بہ شمار می آید ’’تاج محل‘‘ آن در آگرہ خود، یکی از عجائب ہفتگانہ جہان محسوب است، بس تعجبی ندارد کہ تفسیر آن قرآنی ہم کہ در آن دیار بہ رشتۂٔ تحریر در آمد۔ باشد یکی از عجایب حیرت انگیز جہان تفاسیر شیعہ بہ شمار می آید۱؎‘‘
وفات:
۱۰؍صفر ۱۰۰۴ھ/۱۶؍اکتوبر ۱۵۹۵ء کو بروز یکشنبہ ہوئی آگرہ میں تدفین ہوئی۔ وفات کے بعد فیضی کی متروکہ میں چار ہزار چھ سو مجلد نفیس کتابیں نکلیں ان میں سے اکثر خود ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں اور یہ سب شاہی کتب خانہ میں داخل کر دی گئیں۔
دیگر آثار:
    مواردالکلم
     مرکزِ ادوار مثنوی
     نل و دمن ہفت کشور
     اکبر نامہ
     سلیمان و بلقیس

No comments:

Post a Comment