Sunday 3 March 2013

امام حسن عسکری علیہ السلام اور قرآن

امام حسن عسکری علیہ السلام اور قرآن
امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام (۲۶۰ھ) کے دور میں کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے سلسلے میں شکوک و شبھات پھیلانے کی کوشش کی آپ نے اپنے علم و فراست کے ذریعہ ان کی کوشش کو ناکام کیا چنانچہ ایک عظیم فلسفی اسحق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض ثابت کرے اور یہ بتائے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے اور ایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے۔ اس نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے کتاب ’’تناقض القرآن‘‘ لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہو گیا کہ لوگوں سے ملنا جھلنا ترک کر دیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ کا خیال تھا کہ اس پر کوئی ایسا اعتراض کیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور مجبوراً اپنے ارادہ سے باز آجائے۔
اتفاقاً آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا۔ حضرت نے اُس سے فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو کتاب ’’تناقض القرآن‘‘ لکھنے سے باز رکھ سکے۔ اس نے عرض کی مولا میں اس کا شاگرد ہوں بھلا اس کے سامنے لب کشائی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو۔ اس نے کہا کر سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا پہلے تو تم اس سے موانست پیدا کرو جب تم سے مانوس ہو جائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہو گیا ہے آپ اس کو دور فرما دیں۔ جب وہ کہے بیان کرو تو کہنا کہ
’’اِن اتاک ہذا المتکلم بہذا القرآن کل یجوزُ اَن یکونَ مرادُہ بِما تَکلم مِنہُ عَنِ المعانِی الّتی قد ظنتہا اِنک ذہبتہا الیھا‘‘
اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو۔ جب وہ تمہارا اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فوراً کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے۔ جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہنا کہ پھر کتاب ’’تناقض القرآن‘‘ لکھنے سے کیا فائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو ، ہو سکتا ہے وہ خدائی مقصد کے خلاف ہو۔ ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہو جائے گی کیونکہ تناقض تو جب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اور ایسا یقینی طور پر نہیں تو تناقض کہاں رہا؟
الغرض وہ شاگرد اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا۔ اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ پھر سوال کو دھراؤ اس نے اعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا۔ اور دل میں کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے۔ پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہو کر بولا بتاؤ یہ اعتراض کس نے بتایا اس نے جواب دیا یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسحاق نے کہا ہرگز نہیں یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی بات نہیں تم سچ بتاؤ یہ کس نے کہا ہے۔ شاگرد نے کہا سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے بتایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے۔ اسحاق کندی بولا ’’الان جئت بہ‘‘اب تم نے سچ کہا ایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتوں کا صدور خاندان رسالتؐ ہی سے ہو سکتا ہے۔
’’ثُمَّ انہ دَعا بِالنارِ وَ اَحَرقَ جمِیعُ مَا کَانَ اَلفَہ‘‘
پھر اس نے آگ منگائی اور کتاب کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا۔۱؎
 اس طرح آپ نے قرآن کے وقار و عظمت کا تحفظ فرمایا اور لوگوں کو اس کے مرتبہ سے آگاہ کیا۔

No comments:

Post a Comment