Sunday 3 March 2013

تیسری صدی

تیسری صدی
ابوالعباس احمد بن اسفر اینی:تیسری صدی کے نامور مفسرقرآن تھے۔ آپ نے تفسیر میں ان آیات کی تفسیر لکھی جو اہلبیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے نے تفسیر کا نام ’’المصابیح فیما نزل من القرآن فی اہل البیت‘‘ لکھا ہے۔۱؎
نجاشی:
 ’’اس تفسیر کی تعریف میں نے احمد بن علی بن نوح سے سنی ہے۲؎۔‘‘
یونس بن عبدالرحمن:امام موسیٰ کاظم و امام رضا کے صحابی تھے۔ نجاشی نے قرآن سے متعلق دو کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ ۱: تفسیر قرآن۔ ۲: فضل القرآن۔  ۲۰۸ھ میں وفات پائی۳؎۔
 عبدالرزاق ابن ھمام صنعانی: ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں آپ کو محب علیؑ اور مولا کے قاتل کا دشمن تحریر کیا ہے۔ ۲۱۱ھ میں وفات ہوئی۔ ابن ندیم نے قرآن سے متعلق آپ کی ان تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ ’’نظم القرآن‘‘ ، ’’قواعدالقرآن‘‘ ، ’’تفسیر الفاتحہ‘‘ ، ’’الحروف المقطعہ فی اوائل السور‘‘
محمد بن ابی عمیر:امام موسیٰ کاظمؑ کے صحابی تھے۔ تفسیر قمی میں تفسیر آیۂ ’’الحمدﷲ رب العالمین‘‘آپ ہی سے مروی ہے۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے آپ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ تفسیر آیۂ ’’ولو تری اذ فزعوا فلا فوت‘‘ آپ سے منقول ہے۔  ۲۱۷ھ میں رحلت ہوئی۔
ابن فضّال کبیر:فطحی شیعہ، بعد میں توبہ کرکے امامیہ ہو گئے تھے۔ بہت زیادہ عبادت گذار تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی ان تفاسیر کا ذکر کیا ہے۔ ’’‘‘الشواہد من الکتاب‘‘، ’’الناسخ والمنسوخ‘‘  ۲۲۴ ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
محمد بن یقطینی: امام علی نقیؑ کے صحابی تھے۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے ان کی تالیفات کے ذیل میں ’’تفسیر القرآن‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۲۴ھ میں حیات تھے۲؎۔
 حسن بن محبوب: کوفہ کے رہنے والے ، امام علی رضاؑ کے صحابی تھے۔ شیخ طوسیؒ نے بڑے احترام کے ساتھ ان کے حالات لکھے ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ۲۲۴ ھ میں رحلت ہوئی۳؎۔
علی بن مہزیار:امام محمد تقیؑ اور امام علی نقی کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات کی تعداد ۳۳ ہے۔ قرآنیات سے متعلق ’’حروف القرآن‘‘ ہے۔  ۲۲۹ ھ کے بعد وفات ہوئی۴؎۔
ابوعبداﷲ محمد برقی:امام محمد تقی کے صحابی اور نواح قم کے رہنے والے تھے نجاشی نے تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔  ۲۳۰ھ میں وفات پائی۵؎۔
 حسن بن اہوازی: حسین بن سعید اھوازی کے بھائی تھے۔ تفسیر القرآن کے علاوہ ۳۰ سے زائد تالیفات تھیں۔ ۲۴۰ھ میں وفات ہوئی۶؎۔
 ابو عبداﷲ سیاری بصری: امام علی نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات میں ’’ثواب القرآن‘‘، ’’کتاب القرأت‘‘، ’’النوادر‘‘، ’’الغارات‘‘ شامل ہیں۔ ۲۴۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
بکر بن محمد مازنی: تیسری صدی کے مفسر تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی ’’کتاب فی القرآن الکریم‘‘ کا ذکر کیا ہے۔  ۲۴۸ھ میں وفات پائی۲؎۔
 ابو جعفر محمد بن اورمہ قمی: نجاشی نے آپ کی ۳۶کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں ’’کتاب تفسیر القرآن‘‘ بھی شامل ہے۔ تفسیر قمی میں آپ سے مروی تفسیر موجود ہے۔ ۲۵۰ھ میں وفات ہوئی۳؎۔
ابو جعفر محمد بن علی بن عبدک جرجانی: جلیل القدر فقیہ، متکلم، صحابی تھے۔ نجاشی نے کتاب تفسیرقرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۵۰ھ میں رحلت ہوئی۴؎۔
فضل بن شاذان: عالی مرتبت متکلم، فقیہ اور صحابی تھے۔ نجاشی نے ۱۸۰ تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ جس میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے۔ ۲۶۰ھ میں وفات پائی۵؎۔
 علی بن حسن فضّال: معتبر بزرگ تھے۔ آقا بزرگ تہرانی نے توصیف و تمجید کے بعد تفسیر کا ذکر کیا ہے جس کا نام ’’کتاب التنزیل من القرآن والتحریف‘‘ ہے ابن عقدہ اور ابن زبیر نے آپ سے روایت کی ہے۔ ۲۷۰ھ میں وفات ہوئی۶؎۔
 ابوالاسحاق ثقفی: زیدیہ فرقہ سے تعلق تھا۔ پھر امامیہ ہو گئے ۔ کوفہ سے اصفہان میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ ’’کتاب مانزل من القرآن فی امیرالمومنین‘‘ اور ’’کتاب التفسیر‘‘ ۲۸۳ھ میں رحلت کی۱؎۔
 حسین بن سعید اہوازی: امام رضا امام محمد تقیؑ امام علی نقیؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی ۵۰ سے زائد تالیفات تھیں۔ جس میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے۔ ۳۰۰ھ میں وفات ہوئی۲؎ ۔
۱۹۔حسن بن موسیٰ نوبختی: تیسری صدی کے شیعہ اکابرین میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کی مشہور تالیف ’’التنزیہ و متشابہ القرآن۳؎‘‘ ہے۔ ۳۰۰ھ  میںوفات پائی۔
۲۰۔ ابوعبداﷲ غاضری: معتبر اور موثق مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے ’’کتاب التفسیر۴؎‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۳۰۰ھ میں رحلت کی۔
حسّان رازی: نجاشی نے کتاب ’’ثواب انّا انزلناہ فی لیلۃ القدر‘‘ اور کتاب ’’ثواب القرآن‘‘۵؎ کا ذکر کیا ہے۔
محمد بن محمد حارثی: جید شیعہ علماء میں شمار ہوتا تھا۔ نجاشی نے کتاب نوادر علم القرآن اور کتاب الامامۃ کا ذکر کیا ہے۶؎۔

No comments:

Post a Comment