Sunday 3 March 2013

محمد طاہر بن مہدی دکنی (م ۹۵۲ھ)

محمد طاہر بن مہدی دکنی (م ۹۵۲ھ)
آپ نے تفسیر بیضاوی پر تحقیقی حاشیہ لکھا۔آپ کی ولادت۸۸۰ھ/۱۴۷۵ء میں ہوئی۔ آپ کا رتبہ علوم ظاہری و باطنی، فصاحت بیان، طلاقت لسان، صورت وسیرت میں اعلیٰ تھا صاحب تاریخ فرشتہ لکھتے ہیں: مصر ،بخارا، سمرقندو قزوین کے لوگ آپ کے معتقدتھے شاہ اسمٰعیل صفوی شہنشاہ ایران آپ سے بدظن ہوئے تو اواخر ۹۲۶ھ موسم سرما میں عازم ہند ہوئے اور بروز جمعہ بندرحیرون پہنچے، اسی دن کشتی چھوٹی اور دوسرے جمعہ کو بندرگوا  پہونچے وہاں سے بیجاپور آئے اسمعٰیل عادل شاہ کازمانہ تھا وہ سوائے ارباب شمشیر کے اور کسی پر توجہ نہ کرتا تھا آپ کی طرف التفات نہ کی تو آپ حج کو روانہ ہوگئے اور بعد ادائے حج و زیارات مدینہ منورہ و زیارات عراق وغیرہ سے مشرف ہوکرپھر قلعہ پرندہ میںواردہوئے جہاں مخدوم خواجہ جہاں دکنی، امراء سلاطین ہمیشہ سے تھے اور نظام شاہ سے ملتجی ہوکر اس قلعہ میں رہتے تھے۔ملا صاحب کی تشریف آوری کی خبرپاکرنہایت احترام و اکرام سے اپنے پاس بٹھایا اورنہایت اصرار سے ٹھہرایا اور ان کے فرزندکتب علمیہ پڑھنے میں مشغول ہوئے۔ اتفاقاً اسی عرصہ میں برہان شاہ نے اپنے استاد اور مولانا پیرمحمدشیروان کوبہ رسم رسالت خواجہ دکنی کے پاس پرندہ میں بھیجا وہاںوہ شاہ طاہر کی خدمت میں پہنچے دیکھا تو ایک فرشتہ بصورت بشرہے ملا پیرمحمد نے اس وجود کونعمت غیرمترقبہ سمجھ کر وہاں سال بھرقیام کیا اورکتاب مجسطی پڑھی اب توتمام دکن میں یہ غل ہو گیا کہ پرندہ میںایسا بزرگوار ہے کہ پیرمحمد جیسااستاد اسکا شاگردہوگیا جب ملاپیر محمدپھر احمد نگرمیںواپس آئے اوربرہانشاہ کی خدمت میںحاضر ہوئے تووجہ توقف بیان کرکے شاہ صاحب کی بہت تعریف کی کہ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے اور عمربھر میں نے ایساعالم وفاضل ایران و توران اورہندوستان میں نہیں دیکھا اس جامع فیوض نامتناہی کی برکات مجھ بے بضاعت کے شامل حال ہوئیں اور ایسے مجہولات اور اسرار منکشف ہوئے کہ طائر بلند پروازفہم انسانی اس کے مدارج عالیہ کے کنہ کمال میںراہ نہیںپاتا اورعقول نکتہ داں عقلائے زمان کواس اطوار سے نہ آگاہی نہیں   ؎
دروصف کمالش عقلا حیراں اند
بقراط حکیم وبو علی ناداں اند
بایں ہمہ علم و حکمت و فضل و کمال
در مکتب علم او الف باخوانند
اب تو برہان نظام شاہ کو بھی قدم بوسی کاشرف ہوااورایک عریضہ لکھ کرپیرمحمداستادکے ہاتھ قلعہ پرندہ میںبھیجا پھر تو خواجہ جہاںنے مجبور ہوکر شاہ صاحب کو ۹۲۸ھ میں احمدنگربھیج دیا تمام اراکین دولت واشراف واعیان سلطنت چارکوس تک استقبال کوآئے اورشاہ صاحب کو نہایت اعزازواکرام سے شہرمیںلائے برہان شاہ نے تمام مقربین سے آپ کی قدر ومنزلت زیادہ کی اور خواہش کی کہ قلعہ احمدنگر کی جامع مسجدمیںمجلس درس منعقد فرما دیں شاہ صاحب اس کے کہنے کے موافق ہفتہ میں دوروز علمائے دارالسلطنت کے ساتھ بحث علمی میںمشغول ہوتے تھے اوربڑا مجمع ہوتاتھا اوراکثر خودبرہان شاہ بھی آکرمودب بیٹھتا اورجب تک مباحثہ رہتا مجلس برخواست نہ ہوتی تھی اسی زمانہ میںچھوٹا شہزادہ عبدالقادر تپ محرقہ میںمبتلا ہوا برہان شاہ اس سے بہت مانوس تھامضطرہوکرحکیم قاسم بیگ اور دیگرحکماء سے فرمایاکہ اگرمیراجگربھی دوا میں کام آجائے تودریغ نہیںاوراپنی حیات پر اس کی زندگانی کو بہتر جانتا ہوں مگر ع
مرض بڑھتاہی گیا جوں جوںدوا کی
اب طاقت طاق ہو گئی حکماء نے جواب دے دیا برہان شاہ نے ہر مسلم و غیر مسلم سے التماس دعا کی شاہ طاہر نے موقع پاکر کہا کہ شاہزادہ کی صحت کے بارے میںمیری ایک تجویز ہے مگر اس کے اظہار میں خطرات بے شمار ہیں برہان شاہ نے کہا کہ بیان کرو میں بھی حتی الامکان کوشش کروں گا اور آپ کوکوئی گزندنہ پہنچے گا شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ خوف ہے کہ آپ کے مزاج کے خلاف ہو اورمیں معتوب ہوں اوردشمنوں کوہنسی کاموقع ہاتھ آئے بادشاہ نے حدسے زیادہ مبالغہ کیاتو آپ نے جرأت کرکے اول اتناہی کہا کہ اگرشاہزادہ آج ہی کی شب شفاپائے تو آپ نذرمانیں کہ زرکثیر سادات اولاد  دوازدہ ائمہ معصومین کو دونگا بادشاہ نے کہا کہ کون بارہ امام شاہ صاحب نے اسمائے مقدسہ اور ان کے اوصاف دل نشین کرائے بادشاہ نے کہا کہ یہ نام میں نے اپنی والدہ سے سنے تھے یا آج آپ سے سنتاہوں شاہ طاہرنے کہاکہ میرا مطلب یہی ہے مگرجب کہوںگا کہ جب آپ مجھ سے عہد کریںگے کہ اگر آپ کوناگوار ہوتومجھے مع میرے عیال کے مکہ کواجازت دی جائے بادشاہ نے عہدکیا قرآن اٹھایاقسم شرعی کھائی کہ ہرگز آزارنہ دوںگا تب شاہ صاحب نے فرمایاکہ آج شب جمعہ میں نذرکیجئے کہ حضرت باری چہاردہ معصومین علیھم السلام کی برکت سے آج شب کوشہزادہ کو شفا فرمائے توخطبہ ائمہ علیھم السلام کے ناموںکا پڑھواکران کے مذہب کورواج دوںگا چونکہ بادشاہ شہزادہ سے مانوس تھااوراس کی حیات سے مایوس تو یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اپنا ہاتھ ملا صاحب کے ہاتھ پر رکھ کر عہد کیا بادشاہ تمام رات شہزادہ کے پلنگ کے پاس بیٹھا رہا ہر چند چاہتا تھا کہ شاہزادہ کو لحاف اڑھائے مگر وہ بچہ شدت حرارت سے ہاتھ پاؤں مار کر لحاف پھینک دیتا تھا بادشاہ یہ حالت دیکھ کر جانتا تھا کہ یہ بچہ آج کی رات کا مہمان ہے اب اس پر لحاف ڈالوتاکہ ایک ساعت تو خوش حال رہے اوردنیا کی ہوا کھا لے باشاہ صبح تک بیٹھا رہا اور سر عبدالقادر کے پلنگ پررکھ دیا تو ذرا غنودگی آگئی ناگاہ ایک بزرگوار نورانی صورت مع بارہ بزرگوار تشریف لائے بادشاہ نے ان کااستقبال کیا اور سامنے مودب کھڑا ہوا ان میںسے ایک صاحب نے فرمایاکہ تو جانتاہے یہ صاحب کون ہیں یہ جناب رسول خدا صلی اﷲعلیہ و آلہ و سلم اور یہ بارہ ائمہ ہدیٰ ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بارہ اماموں کی برکت سے عبدالقادر کوشفابخشی مگرمیرے فرزند شاہ محمد طاہر کے کہنے سے تجاوز نہ کرنابادشاہ خوش خوش بیدارہوا دیکھا کہ عبدالقادر لحاف اوڑھے پڑا ہے اس کی ماںاور دایہ دونوںبیدار تھیں پوچھا کہ یہ لحاف اس پر کس نے اڑھایا انھوںنے کہا کہ لحاف خود بخود جاپڑا ہم ڈرے اور طاقت کلام ہم میں نہ رہی اب جو بادشاہ نے دیکھاتو تپ ندارداورشاہزادہ آرام سے سو رہا ہے بادشاہ شکرخدا بجالایا اور فوراً چوبدار بھیجا کہ شاہ صاحب کو لاؤ اس نے دروازہ کی زنجیر ہلائی دستک دی اورادھر شاہ صاحب کی یہ حالت تھی کہ سربرہنہ خشوع وخضوع سے سجدہ میں بچہ کی صحت کی دعا کر رہے تھے چوبدار کی آواز سن کر پریشان ہوئے کہ یا توبادشاہ کے خلاف مزاج ہوا یا شاہزادہ مر گیا اور یہ موت کا فرشتہ ہے۔ ناگاہ دوسرا آدمی آیا اورفکر ہوئی اور چاہا کہ مکان کی پشت کی طرف سے کود کر بھاگ جائیں ناگاہ چھ سات آدمی متواتر آئے شاہ صاحب خدا پر توکل کرکے عازم ہوئے اہل و عیال کو رخصت کیا اوروصایا فرما کر بادشاہ کے پاس آئے جب بادشاہ کوآنے کی خبر ملی تو دروازہ تک استقبال کیا ہاتھ پکڑ کرعبدالقادر کے سرہانے لائے اورکہا کہ مذہب شیعہ مجھ کو تعلیم کرو شاہ صاحب نے کہا کہ پہلے حقیقت حال بیان فرمایئے توکچھ عرض کروں بادشاہ نے کہا کہ مجھے صبر نہیں پہلے مذہب شیعہ تعلیم کرو شاہ صاحب نے پھر وہی جواب دیاتو بادشاہ نے ساراقصہ کہا تب شاہ صاحب نے اسمائے معصومین ان کوتعلیم کئے اور فضائل ومناقب بیان فرمائے۔بادشاہ اورشاہزادہ حسین اورعبدالقادر اور ان کی والدہ بی بی آمنہ اور بھی مرد عورت اورمتعلقین کوشاہ صاحب نے ولائے اہل بیتؑ سے سرشار کر دیا الغرض صبح طالع ہوئی برہان شاہ نے چاہاکہ خطبہ میںبارہ اماموںکے نام داخل ہوںشاہ صاحب نے فرمایا کہ ابھی یہ رازفاش نہ کیا جائے۔بلکہ چاروںمذہب کے علماء جمع کرکے حکم دیجئے کہ میںمذہب حق کاجویا ہوں تمام اتفاق کرکے اسی کواختیار کریںاورمیںبھی وہی مذہب اختیار کروںگابادشاہ نے ملا پیر محمداستاد اورافضل خاںاور ملا داؤد دہلوی وغیرہ جو احمدنگرمیںتھے جمع کیا اورمدرسہ شاہ طاہرمیںمباحثہ ہواہرعالم اپنے مذہب کی تائید اوردوسرے مذہب کی تردید کرتااکثراوقات برہان شاہ بھی موجود ہوتاچندماہ مباحثہ رہامگرکچھ نہ ہوا تب بادشاہ صاحب سے کہا کہ اب تک کسی مذہب کو ترجیح ثابت نہیںہوئی لہٰذا کوئی اورمذہب بھی ہے کہ وہی اختیار کروں اور اس کے حق وبطلان میںغور کیا جائے شاہ صاحب نے فرمایا کہ ایک مذہب اثنا عشری اور ہے اگرہو تو اس کی کتابیںحاضرکردوںبادشاہ نے حکم دیا اور ایک عالم بھی بہت تلاش سے ملے جن کا نام نامی شیخ احمد نجفی تھا ان کا چاروں مذہب کے علماء سے مناظرہ ہوا اور شاہ صاحب بھی ان کی مدد کرتے تھے اب معلوم ہوا کہ شاہ صاحب شیعہ ہیں تو سب کو عداوت ہوگئی اور بحث کتب اہل سنت سے چھڑ گئی تو سب مغلوب ہوگئے تو بادشاہ نے عبدالقادر کی بیماری اور صحت کا قصہ بہ تفصیل سب کو سنایا تو اسی وقت اکثر علماء ومقربین اور ہر طبقہ کے اور غلامان ترکی و ہندی و حبش وامراء ومنصب دار و سپاہی وشاگرد و پیشہ و رو جاروب کشان وفراشان و فیل بانان وغیرہ تقریباً  تین ہزار آدمی شیعہ ہوکر بایمان ہوئے اوربارہ ائمہ کے نام خطبہ میںداخل کئے گئے اورمومنیت کی بنیاد پڑ گئی جب ملا پیر محمد استاد اور دیگر علماء نے یہ رنگ دیکھا تواس جلسہ سے پریشان اورپشیمان ہوکر نکلے اوراحمدنگر میںشور وغوغا ہوگیارات کے وقت بہت سے امراء ومنصبدار پیر محمد کے مکان پر جمع ہوئے اور کہا ع اے بادصبا این ہمہ آوردہ تست، اس سید بلائے دل ودین کو کہاں سے لے آئے چونکہ علوم عربیہ سے واقف ہے تو بادشاہ کو گمراہ اور علماء پرافسوں کرکے ان کی زبانوں کو بند کردیا اب کیا کرنا چاہئے بعض نے قتل کا مشورہ دیا مگر پیر محمدنے کہا کہ جب تک بادشاہ زندہ ہے یہ نہیںہو سکتا۔لہٰذا اول بادشاہ کوتخت سے معزول کرو اورشہزادہ عبدالقادر کوتخت نشین کرو توپھرملا طاہر کوعبرت کے لیے قتل کرو بارہ ہزارسوار پیادہ اجماع کرکے پیر محمد کے ساتھ قلعہ کے دروازہ پر کالے چبوترہ کے پاس جمع ہوکر محاصرہ پر تیار ہوئے اورشاہ صاحب کے گھر کو مع ان کے فرزندوںکے موکلوں کے حوالہ کردیا برہان شاہ نے سن کر حکم دیاکہ قلعہ بندکرلواور قلعہ کی برجوںپر جاکر توپ سے کام لو جب بہت غوغاں ہوا تو شاہ صاحب سے مضطر ہوکر پوچھا کہ اب کیا ہوگا شاہ صاحب علم جفرمیں ملا شمس الدین جعفر کے شاگرد تھے قرعہ ڈال کرحکم دیاکہ ابھی فتح ہوگی دروازہ قلعہ کا کھول دو اورسوار ہو بادشاہ فوراً مسلح ہوکرسوار ہوا اورایک ہزارپیدل اور پانچ ہاتھی مع چترسبزعلم شاہ صاحب کے ساتھ نکلے شاہ صاحب نے ایک مٹھی خاک لے کر اس پرآیہ الجمع آخر تک پڑھ کر ہوا کی طرف پھینکی اورچند نقیبوں کوحکم دیاکہ دشمنوںکے پاس جاکر پکارو کہ جو خیرخواہ سلطنت ہو وہ چترسبز کے نیچے آجائے اور جو حرام خور ہو وہ پیر محمد کے ساتھ منتظر قہر سلطانی کا رہے اور افسران سپاہ امان لے کر بادشاہ کے ہم رکاب ہو گئے اورپیرمحمدمع چندسپاہیوں کے گھر کوچلاگیا بادشاہ نے ملک احمد تبریزی اورخواجگی محمود کومع فوج معتمدپیر محمد پرمقرر کیا کہ اس کو پکڑ کر لاؤ جب وہ  پکڑاہواآیا تو بادشاہ نے حکم دیا  لیکن شاہ صاحب کی سفارش سے کسی قلعہ میںقیدکردیااورچار سال قید رہااورشاہ صاحب کی سفارش سے رہائی پائی اورپھر مقرب شاہی کرایا گیا اورجہاں برہان شاہ نے خواب دیکھا تھاوہاں عالیشان عمارت بنوائی اور مسجد شروع کی جواوائل عہدمرتضیٰ نظام شاہ میںپوری ہوئی اور مذہب حق کاعروج شروع ہوا اورایک چار دیواری پختہ عالیشان قلعہ احمد نگرکے سامنے بنوائی اور اس کانام لنگردوازدہ امام رکھااورچند گاؤںاس کے نام وقف کئے اور ہر روز صبح کوکھانا مومنین کوتقسیم ہوتا تھا اورخزانہ شاہی سے زرکثیرعراق وخراسان وغیرہ پہنچتے تھے اورشیعوںکوادھر ادھرسے بلاتے تھے پھر توتھوڑے ہی زمانہ میںساتوںولایت کے قابل ولایق شیعہ جمع ہوگئے مثل شاہ جعفربرادر شاہ طاہر اورملاشاہ محمدنیشاپوری اورملاعلی کلاسترآبادی اورملارستم جرجانی اورملاعلی مازندانی اورایوب ابو برکت اورملاعزیزاﷲگیلانی اورمحمدامامی استرآبادی اورافاضل واکابردکن آئے اور احمد نگر کو گلستان ارم بنادیا جب شاہ اسمٰعیل صفوی شہنشاہ ایران نے برہان شاہ کا شیعہ ہوناسناتو ۹۵۰ھ میںبہت سے تحائف برہان شاہ کے واسطے اورتہنیت نامہ بھیجاتوعقیق کی ایک انگشتری کہ جومدتوںشاہ ایران کی انگلی میںرہی تھی اوراس پر کندہ تھاالتوفیق من اﷲ)شا ہ صاحب کے لیے بھیجی تو شاہ صاحب نے بھی اپنے فرزند شاہ حیدر کے ہاتھ تحائف ہند بھیجے اور شاہ حیدر بھی بڑے فاضل وباکمال تھے۔شاہ طاہر نہایت ذہین وذکی تھے اورطبیعت نکتہ رس تھی چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ سرگیں بخارا طاہر ہے یانجس توآپنے فوراً فرمایا کہ کتاب دیکھ کر کہوںگا اورشاہ صاحب نے ۹۵۶ھ میںانتقال فرمایاشہرکے چھوٹے بڑوں کو صدمہ ہوا۔ اس وقت آپ کی لاش امانت رکھی گئی اورپھر روانہ کربلائے معلی کی گئی اور امام حسین کے گنبد کے اندر قبر مقدس سے تخمیناً ڈیڑھ گز کے فاصلے سے آپ کو دفن کیا۔ تین لڑکیاں اورچارلڑکے وارث چھوڑے لڑکوںکے نام یہ تھے شاہ حیدر شاہ رفیع الدین حسین شاہ ابوالحسن شاہ ابو طالب شاہ حیدرعراق میں رہے اور باقی دکن میں اور شاہ حیدر شاہ صاحب کی وفات کے وقت ایران میں شاہ طہماسب کے پاس تھے واپسی کے بعد حسب الوصیت سجاہ نشین ہوئے اور مقتدائے ارباب عقیدت گزین ہوئے شاہ صاحب عفت و ورع،تقوی و دینداری ومروت وسخاوت وعلم وتواضع سے متصف اوروجیہ وخوش بیان اموراسلام میں نہایت سرگرم تھے ہر صغیر وکبیر کے دلوںپرخیرخواہی کا سکہ تھا زبان گوہر افشان حقائق مصحف آسمانی کے مفسراور بیان ہدایت نشان دقائق کتب سبحانی کامظہر اور قلب مبارک آثار ولایت و ارشاد کا مطلع اور خاطر فرخندہ مآثر مہبط انوار ہدایت ارشاد تھا مشائخ کبار اوراہل دل کی صحبت اٹھائے ہوئے علم تفسیر وحدیث و فقہ واصول و ریاضی اورتمام حکمیات ورمل وجفرمیںبے مثل اور نظم و نثر کے ماہر دیوان قصائد وکتاب انشاء آپ کی تمام ہندو غیر ہ میںمشہور ہیں تصانیف آپ کی یہ ہیں شرح باب حادی عشر علم کلام میں اور شرح جعفریہ فقہ میںاورحاشیہ تفسیر بیضاوی اورحواشی شرح اشارات ومحاکمات شفا اورمجسطی ومطول و گلشن زار اور شرح تحفہ شاہی اوررسالہ پالکی کہ کسی سفر ہند میں پالکی میں سوار تھے اوراثنائے راہ میںلکھا تھاجب کہ آپ بطریق رسالت احمد نگر میںگئے توتمام طلاب وعلماء آپ سے ملنے آئے مگر ایک عالم دکن کہ اپنے کو اعلم علمائے جفر جانتاتھا نہ آیابعدچند رو ز کے شاہ صاحب کودعوت کے بہانے سے اپنے مکان پربلاناچاہااوراپنے آدمی کے ہاتھ یہ سطر لکھ بھیجی کہ قال النبیؐ الاجابۃ سنۃ موکدۃ آپ نے نیچے لکھ دیاالزیارۃ القادم فاذاتعارضاتساقطا اس نے آپ کی جودت ذہن اورپایۂ علم سمجھ لیا اور ملاقات کے لیے آیا تو اپنے کو بحرذخار کے پہلو میںایک قطرہ پایا پشیمان ہو کرآپ کے ہاتھ پر بوسہ دیا اورعذر کیا مجلہ شیعہ کھجوہ اگست ۱۹۰۸ء میں یہ شعر نمونہ کے طور پر لکھے ہیں     ؎
مطلع ایجاد احمد حسن مطلع بوتراب
ہست بیت اہلیتش شاہ فرد انتخاب
مرتضیٰ آنکہ شہ مسند عالی نسبی ست دیگر
آفتابیست کہ برج شر  فش دوش نبی ست
اورمرغوب دل میںمفتاحالتواریخ کے حوالہ سے تاریخ وفات شاہ صاحب تابع اہل البیت)ممکن ہے ۹۵۲ھ میںانتقال فرمایا اورلاش اقدس آپ کی کربلائے معلی ۱۵۵۹ء میںبھیجی گئی ہو۱؎۔
حاشیہ تفسیربیضاوی عربی:
یہ تحقیقی حاشیہ ہے۔
صاحب طبقات مفسران:
’’شاہ طاہربن رضی الدین اسماعیل حسینی کاشانی ازسادات خاندیہ یکی ازاعیان تفسیری قرن دہم ہجری می باشد اویکی از اکابر علماء امامیہ اثنا عشری از تلامذۂ محمدبن احمدخضری معرفی می نماید کہ در دکن ہند اقامت گزید نظام شاہ وعادل شاہ و قطب شاہ از ملوک ہند از برکت ارشاد او مستبصر شد، ومذہب تشیع را پذیر فتہ اند۱؎۔
صاحب نزہۃ الخواطر:
’’وسافرالی الہند فدخل فی بندرگوا وجاء الی بیجاء پور فلم یلتفت الہ اسماعیل عادل شاہ البیجاپوری فسار الی قلعۃ پریندہ ولقی بہاالشیخ پیرمحمدالذی ارسلہ برہان نظام شاہ الی صاحب القلعۃ بالرسالۃ ماعتقدپیر محمد بفضلہ وکمالہ و قرأ علیہ المجسطی ولما رجع پیر محمد الی احمد نگر ذکرہ عند صاحبہ فطلبہ سنۃ ثمان و عشرین و تسعائۃ واحتقی بہ۔ خطایت لہ الاقامۃ باحمد نگر  و کان یذہب الی قلعۃ احمد  نگر یومین فی کل  اسبوع و یدرس و یحضر العلماء کلہم فی  دروسہ،وکان برہان نظام شاہ ایضاً۔ یحضردروسہ ویستلذ بکلامہ، ولم یزل کذالک حتی مرض عبدالقادر ابن برہان نظام شاہ المذکور و اشرف علی الموت  وکان البرہان مشغوفا بحبہ،فقام الطاہر و بشرہ بالشفاء العاجل لولدہ واخذ العہدعلیہ ان یدعو فی خطب الجمعۃ والاعیاد للائمۃ الاثنا عشر و یروج مذہبہم فی بلادہ،فعاہد برہان نظام شاہ،فلقنہ الطاہر مذہب الشیعۃ من حب ورفض، و تشیع برہان نظام شاہ و معہ اہل بیتہ و خدمہ نحو ثلاثۃ الٓالاف من الرجال والنساء ونال الطاہر ما رامہ من الدعوۃ‘‘
ولہ مصنفات کثیرۃ:
’’منہا شرح الباب الحادی عشر فی الکلام ،و شرح الجعفریۃ فی فقہ الامامیۃ و حاشیۃ علٰی تفسیر البیضاوی و لہ حواشی علی الاشارات والمحاکات والمجسطی والشفاء والمطول وگلشن زار وشرح تحفہ شاہی۱؎‘‘

No comments:

Post a Comment