Sunday 3 March 2013

امام علی نقی اور تفسیر قرآن

امام علی نقی اور تفسیر قرآن
امام دہم حضرت امام علی نقی علیہ السلام (۲۵۲ھ) سے بڑی تعداد میں آیات قرآن کی تفسیر مروی ہے۔ جب بھی سوالات کئے گئے آپ نے آیات قرآنی کے تناظر میں جوابات دئیے۔
یحییٰ بن اکثم نے ابن سکیت کو چند سوالات لکھ کر دئیے کہ ان کے جوابات امام علی نقیؑ سے معلوم کرے۔ ابن سکیت نے وہ سوالات امام کی خدمت میں پیش کئے۔
سوال: ’’قال الّذی عِندہ عِلمٌ مِن الکتابِ اَنَا آتیکَ بہ قَبلَ اَن یَر تَدّ اِلیک طرفُک‘‘(نمل ۴۰) سے مراد آصف بن برخیا ہیں تو کیا ان کا علم حضرت سلیمان سے زیادہ تھا؟
جواب:    حضرت سلیمانؑ عاجز نہیں تھے اس چیز کی معرفت سے جس کی معرفت آصف کو تھی۔ لیکن وہ چاہتے یہ تھے کہ تمام جن و انس یہ جان جائیں کہ میرے بعد حجت خدا آصف ہونگے۔ یہ تو در حقیقت حضرت سلیمانؑ کا علم تھا جو انھوںنے آصف کو بتایا تھا۔
سوال:    خداوندعالم سورہ یوسف میں فرماتا ہے  ’’وَرَفَعَ اَبَویہ عَلٰی العرشِ و خَرّو الہ سُجّداً‘‘ کیا یعقوب کو سجدہ کرنا جائز تھا۔
جواب:    یہ سجدہ اطاعت خدا میں شکر انے کا سجدہ تھا جیسا کہ ملائکہ کا سجدہ آدم کے لیے نہیں تھا بلکہ حکم الٰہی کو سجدہ تھا۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ شکر خدا میں یوسف نے کہا تھا  ’’رَبِّ قدا تیتنی من الملک الخ‘‘
سوال:    آیۂ  ’’فاِنْ کُنتَ فی شَکٍ مِمَّا اَنزَلَنا اِلِیکَ فَسأَل الَّذِیْنَ یَقر ء وُنَ الکتاب مِن قَبلِکَ‘‘ کیا رسول خدا کو کسی طرح کا تردد تھا؟
جواب:    حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کو کسی طرح کا تردد و شک نہیں تھا بلکہ ان کی قوم کے جاہلوں کو شک تھا وہ کہتے تھے خدا نے ملائکہ میں سے کسی ملک کو رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا؟ اور عام لوگوں اور نبی کے درمیان اس طرح فرق کیوں نہیں رکھا کہ نہ وہ کھاتا پیتا اور نہ باز اروں میں چلتاپھرتا۔ پس خداوند عالم نے اپنے نبی پر وحی نازل کی کہ جو آسمانی کتابیں پڑھتے ہیں جاہلوں کے سامنے ذرا ان سے یہ تو پوچھو کہ کیا تم سے پہلے خدا نے کوئی نبی ایسا بھیجا تھا جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو؟ بس جیسے وہ تھے ویسا ہی میں ہوں۔ آنحضرت شک میںمبتلا نہیں تھے بلکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے مباہلہ میں کہا گیا ہے  ’’فَقُل تَعالو نَدعُ اَبناء نَا وَاَبنَاء کُم و نِسَاء نَا و نَسائکُم وَانفسُنا و اَنفسکم ثم نبتہل فنجعل لعنۃَ اﷲِ علی الکاذبین‘‘ (آل عمران ۶۱)
    یعنی ایسا نہیں تھا کہ ان کے ابناء اورنساء کے متعلق یہ خیال ہوکہ اگر وہ مباہلہ میں لعنت کرینگے تو ان کی بدعا قبول ہو جائیگی یعنی استجابت دعا میں ان کو برابر کا شریک نہیں سمجھا گیا تھا بلکہ اپنی دعا کی قبولیت کا یقین تھا لیکن مصلحتاً ان کو شریک کیا گیا اگریوں کہا جاتا ’’تعالوا نبتہل فنجعل لعنۃ اﷲ علیکمٔ ‘‘ آؤ ہم مباہلہ کریں اور اﷲ کی لعنت تم پر قرار دیں تو وہ مباہلہ قبول نہ کرتے خدا کو اس کا علم تھا کہ آنحضرت اس کے سچے رسول ہیں اور ان کو کسی طرح کا شک نہیں ہے۔
سوال:    آیۂ ’’وَ لو اَنَّ ما فِی الاَرضِ مِن شجرۃٍ اقلام والبحر یمدُّہ من بعدَہِ سبعۃ ابحر ما نفدت کلماتُ اﷲِ اِنَّ اﷲَ عزیزٌ حکیمٌ‘‘ (سورہ لقمان ۲۷) کلمات کیا تھے اور سات دریا کون سے ہیں۔
جواب:    آپ نے فرمایا وہ سات دریا ہیں عین الکبریت، عین الیمین عین برہوت، عین طبریہ، عین ماسیدان، عین افریقہ، عین باحوران، اور ہم وہ کلمات ہیں جن کے فضائل کا کوئی احصاء نہیں کر سکتا۔۱؎

No comments:

Post a Comment