Sunday 3 March 2013

امام محمد تقی علیہ السلام اور تفسیر قرآن

امام محمد تقی علیہ السلام اور تفسیر قرآن
امام نہم حضرت امام محمدتقی علیہ السلام (۲۲۰ھ) نے اپنے مختصر دورِ امامت میں قرآن مجید کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپ نے الٰہی علم کے ذریعہ آیات قرآن کی تشریح اور تاویل بیان فرمائی۔
آیہ ’’قل ہذہ سبیلی اُدعوا الی اﷲ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی‘‘ کے متعلق فرمایا اس سے مراد حضرت رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اوصیاء ہیں۔ آیۂ  ’’والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا‘‘ کے متعلق فرمایا اس سے ہم اہل بیت مراد ہیں۲؎۔ ’’عن ابی ہاشم الجعفری قال: سالت ابا جعفر الثانی مامعنی الواجد؟
قال الذی اجتماع الالسن الیہ بالتوحید کما قال اﷲ عز و جل وَ لَئن سئلتہم من خَلَقَ السّموات والارض لیقولن اﷲ۳؎‘‘
ابو داؤد عہد بنی عباس کا زبردست عالم تھا اس کا دوست زرقان نقل کرتا ہے کہ ایک روز ابن ابی داؤد معتصم عباسی کے دربار سے انتہائی محزون حالت میں آیا میں نے اس سے حزن و ملال کا سبب معلوم کیا ابو داؤد نے کہا کاش بیس سال قبل ہی مر گیا ہوتا اور اس رسوائی کا سامنا نہ ہوتا۔ میں نے معلوم کیا کیا قضیہ ہے؟
اس نے جواب دیا معتصم کے دربار میں ایک چور لایا گیا جس کا جرم ثابت تھا معتصم نے مجھ سے پوچھا اس کا ہاتھ کہاں سے کٹے؟ میں نے فوراً جواب دیا گٹے سے اس نے دلیل معلوم کی میںنے تیمم کی آیت پڑھی  ’’فَامْسَحُوا بِوُجوہِکُمْ وَ اَیدیَکم‘‘ معتصم نے دوسرے علماء سے دریافت کیا انھوںنے کہا کہنی سے ہاتھ کٹنا چاہئے اس نے دلیل پوچھی انھوںنے وضو کی آیت پیش کی  ’’فاغسلوا وجوہکم و ایدیکم الی المرافق‘‘اس آیت میں کہنی تک ہاتھ کا اطلاق ہوا ہے۔
معتصم نے پھر امام محمد تقی سے دریافت کیا آپ فرمائیں شریعت کا کیا حکم ہے۔ آپ نے انکار فرمایا مگر معتصم کا اصرار ہوا تو آپ نے فرمایا چور کی صرف چار انگلیاں کٹیں گی۔
اس نے کہا دلیل دیجئے آپ نے فرمایا سجدہ سات اعضاء پر واجب ہے۔ پیشانی، دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دو پیر کے انگوٹھے۔
اگر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو پھر سجدہ کیسے کرے گا پھر آپ نے قرآن مجید کی آیت سے ثبوت پیش کیا خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے  ’’اِنَّ الْمَسَاجِد لِلّٰہِ فَلَا تَدعُوا مَعَ اﷲِ اَحداً‘‘
پس اعضائے سجدہ اﷲکے لیے ہیں اس کی صرف انگلیاں کٹیںگی یہ سن کر معتصم بہت خوش ہوا اور آپ کے حکم کے مطابق حد شرعی جاری کی۔ ۱؎
یہ تھا آپ کا تبحر علمی جس کا مقابلہ بڑے بڑے علماء نہیں کر پائے۔

No comments:

Post a Comment