Sunday 3 March 2013

مبارک، شیخ، ناگوری(م ۱۰۰۱ھ)

مبارک، شیخ، ناگوری(م ۱۰۰۱ھ)
گیارہویں صدی کے نامور مفسر قرآنشیخ مبارک بن خضر یمانی کے جد موسیٰ یمن سے آکر نویں صدی ہجری میں صوبہ سندھ کے علاقہ ایل میں مقیم ہوئے۔ شیخ موسیٰ کے پوتے رکن الدین ان کے بیٹے شیخ خضر سندھ سے نکل کر شہر ناگور (راجستھان) میں رہنے لگے۔
شیخ مبارک ۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء میں ناگور میں متولد ہوئے بلاکے ذہین وفطین تھے۔ ۱۴ سال کی عمر میں علوم متداولہ میں سے ہر فن کا ایک ایک متن حفظ تھا۔ شیخ عطن شیخ سالار ناگوری اوربقول بعض حضرات عبداﷲ احرار سے بھی کسب فیض کیا۔ خطیب ابوالفضل گا زرونی سے بھی عقیدت و تلمذ کا رشتہ رہا۔
تحصیل علم سے فراغت کے بعد ۶؍محرم ۹۵۰ھ کو آگرے کے قریب جمنا پار اترے اور وہیں سکونت اختیار کی۔ گوشہ نشینی اور تصنیف و تالیف مشغلہ تھا۔ خود داری کا یہ عالم تھا کہ شیر شاہ سوری نے بلایا نہیں گئے، معاصرین نے مخالفت شروع کر دی شیعیت کے الزام میں بہت زیادہ ستائے گئے۔ میر حبش کو شیعہ کہہ کر قتل کیا گیا۔ جس کے سبب شیخ مبارک کو اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھ کر روپوش ہونا پڑا۔ جنگلوں صحراؤں کی خاک چھاننا پڑی جس کا تذکرہ شیخ ابوالفضل نے آئینہ اکبری میں کیا ہے۔
آپ سختی سے شریعت پر عمل پیرا تھے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے تھے جس کو بھی خلاف شریعت عمل کرتے ہوئے دیکھتے تھے فوراً ٹوک دیتے تھے جس کا تذکرہ ملا عبدالقادر بدایونی نے اس طرح کیا ہے جوکہ فکری اعتبار سے ان کے مخالف تھے۔
’’شیخ مبارک اپنے عہد کے جلیل القدر عالم تھے تقویٰ، توکل اور صلاح میں ممتاز تھے۔ ابتداء میں انھوںنے بڑی ریاضتیں اور مجاہدے کیے، ان کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہر وقت خیال رہتا تھا۔ اگر ان کی مجلس میں کوئی شخص سونے کی انگوٹھی یا ریشم یا سرخ و زرد موزے یا کپڑے پہن کر آجاتا تھا تو اس کوفوراً مجلس ہی میں ان چیزوں کو اتار دینے کا حکم دیتے۔ اس طرح جن لوگوں کا جامہ دراز ہوتا تو اسے پھاڑ دینے کا حکم دیتے۔ اگر راستہ چلتے کسی مقام پر راگ یا نغمہ کی بھنک کان میں پڑ جاتی تو تیزی سے قدم بڑھاکر نکل جاتے تھے۱؎۔‘‘
خواجہ نظام الدین بخش:
’’از فحول علمائے روزگار و مشائخ کرام بود شان عظیم داشت۲؎۔ ‘‘
صاحب اخبار الاخیار :
’’ان کے کتاب خانہ میں پانچ سو کتابیں خود ان کے قلم سے لکھی ہوئی موجود تھیں۔۳؎‘‘‘
جلال الدین محمد اکبر کے ابتدائی دور میں جاہ طلب شیعہ دشمن علماء کا بہت زور تھا یہ طبقہ شیخ مبارک اور ان کے فرزندوں سے بہت زیادہ حسد اور دشمنی رکھتا تھا اور ہمیشہ ان کے درپئے آزار رہتا تھا  جس کی وجہ سے شیخ مبارک کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آگرہ چھوڑنا پڑا جس کا تذکرہ ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں بھی کیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ جن دنوں میر حبش اور دوسرے اہل بدعت گرفتار اور قتل ہوئے۔انھیں ایام میں شیخ عبدالنبی صدرالصدور اور مخدوم الملک نے مل کر بادشاہ کے کان بھرے کہ شیخ مبارک مہدوی ہے اور اس پر مستزاد کہ اہل بدعت یعنی شیعہ بھی ہے۔ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہتا ہے۔یہ کہہ کر ان لوگوں نے بادشاہ سے برائے نام اجازت لی اور شیخ مبارک کا خاتمہ کرنے کے در پئے ہو گئے انھوںنے محتسبوںکو روانہ کیا کہ شیخ کو دربار میں حاضر کریں مگر وہ بچوں سمیت روپوش ہوگئے اور محتسب ان کی مسجد کا منبر توڑ کر واپس لوٹ آئے۱؎۔
 ہاشم علی خاں لکھتے ہیں کہ شیخ مبارک نے ایران سے آنے والے علماء سے استفادہ کیا اور ان کی صحبت میں رہ کر شیعہ مذہب کی طرف مائل ہو گئے تھے۲؎۔
صاحب حدائق الحنفیہ مولوی فقیر محمد جھلمی:
’’شیخ مبارک بن شیخ خضرناگوری اکبرآبادی والد شیخ ابوالفیض فیضی ہند کے علماء فحول میں سے فقیہ فاضل مفسر کامل، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے اپنی تمام عمر افادہ و افاضہ اور تنشیر علوم میں صرف کی۔ اخیر عمر میں باوجود یکہ آپ کی بینائی کم ہو گئی تھی مگر قوت حافظہ سے تفسیر ’’منبع عیون المعانی‘‘ چار جلد کلاں میں تصنیف کی اور ۱۰۰۱ھ میں وفات پائی اور آگرہ میں دفن کئے گئے۔ ’’فخرالملک‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔۳؎‘‘
میر غلام علی آزاد بلگرامی :
’’آپ کا ایک نہایت ہی حیرت انگریز کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے پانچ سو ضخیم کتابیں خود اپنے قلم سے تحریر کیں۔آخری عمر میں آنکھ کی روشنی زائل ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود اپنی قوت حافظہ سے پورے قرآن پاک کی تفسیر چار جلدوں میں تصنیف فرمائی اور تفسیر مذکور کا نام ’منبع عیون المعانی‘‘ رکھا۔ قوت حافظہ کایہ عالم تھا کہ تفسیر کی عبارت آپ مسلسل بلا تکلف بیان کرتے جاتے تھے اور املا نویس حضرات اس تقریر کو تحریر کرتے جاتے تھے۱؎۔‘‘
وفات:۱۷؍ذی القعدہ ۱۰۰۱ھ/ ۵؍اگست ۱۵۹۳ء کو بمقام لاہور ہوئی۔
آگرہ میں سپرد خاک کئے گئے آپ کا مزار لاڈلی بیگم کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہاں آپ کی بیٹی لاڈلی مدفون ہے۔
فیضیؔ نے ’’فخرالکمل‘‘ اور ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’شیخ کامل‘‘ سے مادہ تاریخ نکالا۲؎۔
صاحب نزہۃ الخواطر:
’’کان عالماً کبیراً بارعاً فی الفقہ و اصولہ عارفاً بدقائق العربیۃ ماہراً بالتصوف والشعر و فنون اخریٰ وکان یقرا القرآن بالقرأت العشر و یدرس ’’الشاطبی‘‘ وکان کثیراً المطالعۃ دائم الاشتغال بالدرس والافادۃ سریع الادراک قوی الحفظ لم یکن یحفظ شیئاً فینساہ و لما ضعف بصرہ لکبرسنہ و عجز عین المطالعہ اشتغل بتفسیر القرآن و صنف تفسیراً کبیراً فی اربع مجلدات کبار سماہ ’’منبع نفائس العیون۳؎‘‘
صاحب طبقات مفسراین شیعہ:
’’مؤلف بزرگوار تفسیر ’’منبع العیون‘‘ شیخ مبارک بن خضر یمانی ہندی (م ۱۰۰۱ھ) پدر دو مفسر عالیقدر ابوالفیض فیاضی و ابوالفضل علامی، یکی از بزرگان علمای وقت ہندوستان و یکی از اعلام قرن دہم و آغاز قرن یازدہم می باشد۔ او در عصر خود مرجعیت شیعیان آن خطہ را عہد دار و خود او بی سبھرہ از اصول عرفان و تصوف نیز نبودہ است۔ قرآن را باقرائات دہگانہ حفظ کردہ بود و در پایان عمر تفسیری بہ نام ’’منبع العیون‘‘ در چہار جلد بہ یادگار داشت او درسن ۹۰ سالگی بہ سال ۱۰۰۱ھ در لاہور از دنیا رخت بربست۱؎۔‘‘
تفسیر منبع عیون المعانی مطلع شموس المثانی:
 خطی عربی زبان میں پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر کتب خانہ ممتاز العلماء جنت مآب لکھنؤ میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر محمد سالم قدوائی:
پہلی جلد میں شروع کے اوراق نہیں ہیں اس کے بعد کی عبارت اس طرح ہے
’’للاٰثار مستکملا للعلوم سیما استماع الحدیث و اصولہ مضغا مسلسلامتنا اسنادآ و ضبط رجالہ و رواتہ تحقیقا و اتفاقاً من السنۃ بعض المشاہیر الصادرین من الحرمین الشریفین زادہا اﷲ شرفاً۔۔۔‘‘
اس تفسیر میں جن امور کو بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ اس طرح ہے
’’اس کتاب میں وجوہ نظم قرآن، قرات عشرہ، انواع وقوف و خواص آیات کا ذکر کرونگا نیز علمائے راسخین ، حکماء اور صاحب کشف عارفین نے جو معانی و مطالب بیان کئے ہیں انہیں بتاؤنگا جملوں کے ربط اور آیتوں اور سوروں کے درمیان جو مناسبت ہے اسے واضح کرونگا۔ انبیاء علیھم السلام کے قصص اقوام و ملل کے واقعات، اسباب نزول اور ناسخ و منسوخ کو بیان کرونگا اور یہ بتاؤںگا کہ سورتیں جن آیات پر ختم کی گئی ہیں ان کی وجہ کیا ہے۱؎۔‘‘
اس تفسیرپر مفصل مقدمہ لکھا ہے جس میں علوم قرآنی کا مفصل ذکر ہے۔
عرب کون تھے سب سے پہلے عربی زبان کس نے استعمال کی۔ اس زبان کی فضیلت کیا ہے۔ نزول قرآن کا بیان، وحی کا تذکرہ، نزول کی مدت، سورتوں کی تنزیل و ترتیب، مکی و مدنی سورتوں کا بیان، اعجاز قرآن، قرات  قرآن، تعلیم قرآن، تلاوت کے فوائد، معانی کا ذکر، قاریوں کا اختلاف، الفاظ کی کتابت کا بیان، اہل لغت کاتذکرہ غرض کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا ذکر مقدمہ میں نہیں کیا گیا ہو جس سے شیخ مبارک کی وسعت علمی اور گہرے مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹرمحمد سالم قدوائی لکھتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ کے تیس نام انھوںنے بیان کئے ہیں فاتحہ ، حمد، شکر، منتہ، سبع مثانی، ام الکتاب، ام القرآن، نور، کنز، دعا، مناجات، شافیہ، اساس، وافیہ وغیرہ اس میں سے ہر ایک نام کی الگ الگ توجیہ بھی بیان کی ہے اور یہ بیان کیا کہ یہ نام کیوں رکھا گیا اس کے بعد اس سورہ کی مفصل تفسیر کی ہے۔
پہلی جلد پارہ سیقول کی پہلی آیت کی تشریح پر ختم ہوتی ہے۔
دوسری جلد’’قال رب انی لا املک الانفسی واخی فافرق بیننا بین القوم الفاسقین ‘‘ پر ختم ہوتی ہے۔
تیسری جلد :’’ فہل ینتظرون الامثل ایام الذین خلوا من قبلہم قل فانتنظروا انی معکم من المنتظرین ‘‘تک ہے۔
چوتھی جلد :’’ فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا  پر ختم ہوتی ہے یعنی سورہ کہف کے خاتمے تک۔
پانچویں جلد : شروع سے ایک صفحہ غائب ہے’’  وما علمناہ الشعرو ما ینبغی لہ ‘‘ختم قرآن تک یہ تفسیر تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
پہلی جلد میں مصنف نے اپنے حالات اور اس دور کے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تفسیر کی ضرورت و اہمیت کے علاوہ، علوم قرآنی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس تفسیر کے مطالعہ سے آپ کی رقت نظر اور عمیق بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شیخ نے سورہ کو شروع کرتے وقت ابتداء میں اس کا مضمون بطورخلاصہ بیان کر دیا ہے تاکہ سورہ کے مطالب ذہن نشین ہو جائیں۔
سوروں کے درمیان ارتباط کو بھی واضح کیا ہے۔ سورہ کے اختتام پر دعائیہ کلمات ہیں جو مفہوم کے اعتبارسے تو یکساں ہوتے ہیں مگر الفاظ مختلف ہوتے ہیں۱؎۔
اولاد:
شیخ ابوالفیض فیضی، شیخ ابوالفضل، شیخ ابوالخیر، شیخ ابوالبرکات، شیخ ابوالکلام، شیخ ابو تراب، شیخ ابوالحامد۔
    لڑکیوں میں لاڈلی بیگم زوجہ خاوند خاں شیعی و زوجہ فرزند راجہ علی خاں۔


No comments:

Post a Comment