Sunday 3 March 2013

نوراﷲ شوشتری ، شہید ثالث(م۱۰۱۹ھ)

نوراﷲ شوشتری ، شہید ثالث(م۱۰۱۹ھ)
قاضی نوراﷲ شوشتری کی ولادت ۹۵۶ھ/۱۵۴۹ء میں ہوئی۔ آپ کے والد سید شریف حسینی مرعشی اور چچا سید صدر حسینی فقہ، اصول، تفسیر، حدیث کے بلند پایہ استاد تھے۔ آپ نے انھیں بزرگوں اور معاصرین سے کمال علم حاصل کیا۔ ۹۷۴ھ میں مشھد مقدس گئے اور آقایٔ عبدالواحد کے درس میں شرکت کی۔ درجہ فضل و کمال پر فائز ہوکر اساتذہ سے اجازے حاصل کئے۔
۹۹۱ھ میں حکیم فتح اﷲ شیرازی دربار اکبری میں کرسی نشین ہوئے تو انھوںنے اپنے ذوق و مسلک کے ارباب کمال کو جمع کیا ان میں قاضی نوراﷲ شوستری بھی شامل تھے۔ حکیم فتح اﷲ نے موصوف کو آگرے بلایا اور دربار اکبری میں پہنچایا۔ قاضی صاحب نے اپنے علم و فضل کے ذریعہ دربار میں ایک مقام بنایا فتح پور سیکری، اکبرآباد، لاہور، کشمیر میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔ قاضی معین لاہوری م ۹۹۵ھ) ضعف و پیری کی وجہ سے عہدہ قضاوت سے ہٹائے گئے تو ان کی جگہ سید نوراﷲ شوستری کو قاضی دار السلطنت لاہور مقرر کیا۔ آپ نے عہدہ قبول کرتے وقت یہ شرط کی تھی کہ مذاہب اربعہ فقہ میں سے وہ کسی کے پابند نہیں ہوںگے۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، جس فقہ کی رو سے چاہیں گے فیصلہ کریں گے۔ جس سے آپ کے تبحر علم کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ نے لاہور، آگرے کے مرکزی شہروں میں مذہب امامیہ کی ترویج کی، عقائد امامیہ کا کھل کر دفاع کیا۔
۱۰۱۴ھ میں قاضی صاحب آگرہ میں تھے اسی دوران شیخ روز بہان نے کتاب ’’ابطال باطل‘‘ ۔ آپ نے اس کے جواب میں ’’’احقاق الحق‘‘ نام سے معرکۃ الآرا کتاب لکھی جو ربیع الاول ۱۰۱۴ھ میں مکمل ہوئی۔ اسی سال ۱۳ جمادی الثانی ۱۰۱۴ھ میں اکبر بادشاہ کی رحلت ہوئی۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا جہانگیر آیا نظام بدلا افراد بدلے۔ قاضی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے وہ گروہ جو شیعہ دشمنی میں نمایاں تھا۔ سامنے آگیا بادشاہ کو آپ کے خلاف بھڑکا نے لگے غرضکہ آپ ثبات قدم، ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرتے رہے۔
جہانگیر نے علماء سے فتوے مانگے بیالیس مہروں اور فتوؤںکے ذریعہ فیصلہ دیا گیا۔
(۱) سوخاردار درّے لگائے جائیں۔ (۲) سیسہ پگھلاکر پلایاجائے۔ (۳)گدی سے زبان کھینچی جائے۔ (۴) سر قلم کیا جائے۔
شہادت:
۲۶؍ربیع الاول ۱۰۱۹ھ کو آپ جلاد کے سامنے لائے گئے۔ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی نماز کے بعد ایک ٹھیکرے پر یہ آیت لکھ کر فضا میں پھینکی
’’رب انی مغلوبٌ فانتصر‘‘
ٹھیکری واپس آئی تو لوگوں نے دیکھا اس پر لکھا تھا
’’ان کنت عبدی فاصطبر۱؎‘‘
اس کے بعد بادشاہ کے حکم سے بدترین اذیتیں پہنچا کر ۱۰۱۹ھ میں شہید کر دیا گیا جب سے آپ کو شہید ثالث کہا جاتا ہے۔ آپ کا مزار آگرہ میں زیارت گاہ خلائق ہے۔
ملا عبدالقادر بدایونی:
’’شیعہ مذہب کے پیروکار تھے اور نہایت منصف مزاج، عادل، نیک نفس، حیادار متقی تھے۔ شرفاء کی تمام خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ علم و فن، جدت طبع، تیزی فہم، اور ذہانت و ذکاوت جیسی تمام خوبیوں سے آراستہ تھے۔ ان کی بڑی اچھی اچھی تصانیف ہیں۔ شیخ فیضی کی مہمل بے نقط تفسیر پر انھوںنے سرنامہ لکھا جو حدتعریف سے ماورا ہے۔ شعر گوئی کا طبعی ملکہ ہے نہایت دلکش اشعارکہتے ہیں۔ شیخ ابوالفتح کے توسط سے بادشاہ کی بارگاہ میں رسائی ہوئی تھی۔‘‘
ملا صاحب آگے لکھتے ہیں :
’’انھوںنے لاہور کے شرپسندمفتیوں اور مکار محتسبوں کو جو معلم الملکوت شیطان کے بھی کان کاٹتے تھے۔ سیدھا کر دیا اور رشوت کے دروازے بخوبی بند کر دئے اور ان پر کڑی نگرانی رکھی کہ ان سے بڑھ کر انکا انتظام نہیں کیا جا سکتا تھا۱؎۔‘‘
صاحب طبقات مفسران شیعہ:
’’آن شہید سعید سید جلیل القدر عالم نبیل قاضی سید نور اﷲ شوستری (شہید ۱۰۱۹ھ) یکی از اعلام قرن دہم و اوائل قرنی یازدہم ہجری است اویکی از اعاظم علمای نامی در عہد صفویہ می باشد کہ در رشتہ ہای فقہ، اصول، حدیث، تفسیر و کلام سر آمد بود۔۲؎‘‘
صاحب نزہۃ الخواطر:
’’السید الشریف نوراﷲ بن شریف بن نوراﷲ الحسینی المرعشی التستری المشہور عندالشیعۃ بالشہید الثالث ولد سنۃ ست و خمسین و تسعمائۃ بمدینۃ تستر و نشاء بھا، ثم سافرالی المشہد و قراء العلم علی اساتذۃ ذالک المقام ثم قدم الہند و تقرب الی ابی الفتح بن عبدالرزاق الگیلانی فشفع لہ عند اکبر شاہ، ؤن گفولاہ القضاء بمدینۃ لاہور فاستقل الی ایام جھانگیر۱؎‘‘
آپ قرآنیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ متعدد حاشیے لکھے اور مختلف آیات قرآنی کی تفسیریں لکھیں۔
حاشیہ تفسیر بیضاوی:
انتہائی معلوماتی حاشیہ قلمبند کیا۔ اس کا مخطوطہ دو جلدوں میں کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے، دوسرا نسخہ کتب خانہ شہید مطھری تحت شمارہ ۲۰۹۵ میں محفوظ ہے۔
حاشیہ ثانی تفسیر بیضاوی:
مختصر عربی، اس کا نسخہ کتب خانہ ناصریہ لکھنؤ میں موجود ہے۔
اس کے علاوہ مختلف آیات کی تفسیریں بھی لکھیں۔
انس الوحید فی تفسیر آیت العدل والتوحید: عربی قلمی۔ ’’شہد اﷲ اَنّہ لا الہ الا ہو‘‘ اس آیت کے ذیل میں علامہ تفتازانی کی جانب سے زمخشری پر کئے گئے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں۲؎۔ نیز فخرالدین رازی کے سوالات کے جواب بھی دئیے ۔ صاحب ریاض العلماء لکھتے ہیں کہ اس کا نسخہ میرے پاس موجود ہے۔۳؎
    تفسیر انماالمشر کون نجس۔ عربی خطی
    سحاب المطیر فی تفسیر آیت التطہیر    عربی مطبوعہ
    یہ تفسیر کتب خانہ ناصریہ میں محفوظ ہے۔
    رفع القدر فی تفسیر آیۃ شرح الصدر    عربی، قلمی
    یہ تفسیر ایشیاٹک سوسائٹی، بنگال میں موجود ہے۔
بعض آثار علمی:
مجالس المومنین، مصائب النواصب، الصوارم المھرقہ، شرح تہذیب الاحکام، حاشیہ برشرح ہدایۃ الحکمۃ، حاشیہ برشرح ملا جامی، حاشیہ بر شرح تجرید، حاشیہ بر قواعد علامہ، شرح بدیع المیزان، اللمعہ فی صلوٰۃ الجمعہ، عدۃ الابرار، نور العین، تحفۃ العقول، عشرہ کاملہ، گوہر شہوار، حاشیہ برشرح مختصرالاصول، حاشیہ بر مطوّل، رسالہ در اثبات مسح رجلین، حاشیہ خطبہ شرح مواقف، رسالہ فی غسل الجمعۃ، رسالہ انموذج، حاشیہ بر تحریر اقلیدس، حقیقت العصمت، حاشیہ برخلاصۃ الرجال، رسالہ فی رکنیۃ السجدتین، شرح دعا صباح، رسالہ در فضیلت عید شجاع وغیرہ۔



No comments:

Post a Comment