Sunday 3 March 2013

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور تفسیر قرآن


امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور تفسیر قرآن
نواسہ رسولؐ حضرت امام حسن علیہ السلام (۵۰ھ) جن کی تربیت و پرورش آغوش رسالت میں زبان وحی چوس کر ہوئی ان سے بہتر تفسیر قرآن کون بیان کر سکتا ہے چنانچہ امام علیہ السلام نے وقتاً فوقتاً لوگوں کے سامنے رسول اکرم کے لب و لہجہ میں تفسیر قرآن بیان کی۔
امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کتاب خدا میں جہاں بھی ’’الابرار‘‘ آیا ہے اس سے مراد علی و فاطمہ اور حسنین ہیں۔کیونکہ ہم بلحاظ ابناء و امہات ابرار ہیں۔ ہمارے قلوب اطاعت اور نیکی میں بلند ہیں۔ ہم دنیا اور اس کی محبت سے آزاد ہیں۔ ہم نے خداوند عالم کی اطاعت تمام فرائض میں کی ہے ہم اس کی وحدانیت پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے اس کے رسول کی تصدیق کی ہے۔
    آیۂ ’’فی ایّ صورۃٍ رکبک‘‘کے متعلق فرمایا کہ اﷲ نے پشت ابو طالب میں علی کو صورت محمدی عطا کی آپ سب سے زیادہ رسول اﷲ مشابہ تھے، حسین فاطمہ زہرا سے زیادہ مشابہ ہیں اور میں خدیجۃ الکبریٰ سے مشابہ ہوں۲؎۔
    امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ہم وہ اہلبیت ہیں خدا نے جن کی محبت کو ہر مسلمان پر فرض قرار دیا۔ہمارے ہی لیے خداوند عالم نے فرمایا
’’قل لا اسئلکم علیہ اجراً الّا المودۃ فی القربیٰ‘‘
    آیۂ ’’رَبَّنَا ٰ اتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃ و فی الٓاخِرَۃِ حَسَنَۃ‘‘ کی تفسیر میں فرمایا ’’قال: ہی العلم والعبادۃ فی الدنیا و الجنۃ فی الاخرۃ‘‘ حسنۂ دنیا سے مراد علم و عبادت ہے اور حسنۂ آخرت سے مراد بہشت و جنت ہے۔
    حضرت امام حسن سے شاہد اور مشہود کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے فرمایا شاہد سے مراد ذات رسولؐاور مشہود سے مراد قیام قیامت ہے کیونکہ رسول اکرمؐ کے بارے میں ارشاد ہوا ’’یا ایہاالنبی اِنَّا ارسلنک شاہداً و مبشراً و نذیرا‘‘ اور قیامت کے بارے میں ارشاد ہوا ’’ذٰالِکَ یَوْمٌ مجموع لہ الناس و ذالک یومٌ مشہود‘‘۱؎
    امام حسن علیہ السلام بہترین لباس زیب تن کرکے نماز پڑھتے تھے لوگوں نے اس کا سبب پوچھا آپ نے فرمایا ’’اِنَّ اﷲَ جَمِیْلٌ یُحبُّ الْجَمال‘‘ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ’’یا بنی آدم خذوا زینتکُم عِندَ کُلِّ مسجدٍ‘‘ اے اولاد آدم عبادت کے وقت مزین ہو۔

No comments:

Post a Comment