Sunday 3 March 2013

پیش گفتار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پیش گفتار
 
الحمدﷲ الذی فضّل مدادالعلماء علی دماء الشہداء کفضل القمر علی سائرالنجوم فی آفاق السماء والصلوٰۃ والسلام علی النبی الکریم و آلہ الطیبین الطاہرین
قرآن مجید وہ آفاقی کتاب ہے جس کی تفسیریں اور ترجمے دنیا کی تقریباً ہر زبان میں موجود ہیں۔ ہر دور میں علماء و مفکرین نے اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق مختلف طریقوں سے آیات قرآنی کی تشریح اور مطالب کی تبین کی۔
 برّ صغیر ہند و پاک میں اولین ترجمہ کا تعین نہایت دشوار ہے مگر کتاب عجائب الہند مؤلفہ ۹۵۳ء میں راجہ بلہرا (ملک را) کے حالات میں درج ہے کہ:
’’ابو محمد حسن بن عمرو بن حمویہ نے بصرہ میں مجھ سے بیان کیا کہ جب میں منصورہ میں تھا تو وہاں کے شیخ نے مجھ سے بتایا کہ بلہرا نے راجگان ہند میں جو سب سے بڑا راجہ ہے جس کی حکومت کشمیر بالا اور کشمیر زیریں کے درمیان واقع ہے جس کا نام مہروگ بن رائگ ہے۔ ۲۷۰ھ/۸۸۳ء میں منصورہ کے سلطان عبداﷲ بن عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ مجھے ہندی زبان میں اسلام کے اصول اور آئین لکھ کر بھیج دے۔
سلطان نے منصورہ کے ایک شخص کو بلایا جس کا آبائی وطن تو عراق تھا لیکن ہندوستان میں پلا بڑھا تھا اور ہندوستان کی مختلف زبانوں سے واقف تھا۔ راجہ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے راجہ کے پاس چند سال ٹھہر کر آئین اسلام سے واقف کرایا راجہ نے اس سے خواہش ظاہر کی کہ ہندوستانی زبان میں میرے لیے تفسیر قرآن لکھ دے۔ ‘‘
اِنَّہ سَالَہُ اَن یُفَسِّرَ لہ القرآن بالہندیۃ ففسّرہ لہ قال فانتہیت من التفسیر الی سورۃ یاسین
چنانچہ اس نے تفسیر لکھنا شروع کی جب مفسر سورہ یاسین تک پہنچا اور تفسیر راجہ کو سنائی تو راجہ پر رقت طاری ہوئی وہ فوراً تخت سے اتر کر زمین پر سجدہ ریز ہوگیا اور زار وقطار رونے لگا اس کا چہرہ گرد آلود ہو گیا۔‘‘
(قرآن پاک کے اردو تراجم ص ۱۰۹)
اس طرح برّ صغیر میں تفسیرقرآن کا سلسلہ شروع ہوا۔
عرصہ دراز سے علمی حلقوں میں بر صغیر کے مفسرین قرآن کی خدمات کے تفصیلی جائزہ کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ جب کتاب ’’تالیفات شیعہ‘‘ سے فارغ ہوا تو احباب نے اصرار کیا کہ ایک ایسا تذکرہ منظر عام پر آنا چایئے جس میں مفسرکی سوانح کے ساتھ تفسیر و ترجمہ کی خصوصیات اور ضروری معلومات فراہم ہوں۔
توفیق الٰہی شامل حال ہوئی بطفیل حضرات محمد و آل محمد علیھم السلام ناچیز نے موضوع کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اس کام کو انجام دینے کی جرأت کی۔
حسن اتفاق کہ حجۃ الاسلام والمسلمین آقای غلام رضا مہدوی دامت برکاتہ امروہہ تشریف لائے دوران گفتگو اس کتاب کا تذکرہ ہوا۔ آپ بہت خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اشاعت کی ذمہ داری قبول کی۔ ہمت  بندھی کام میں تیزی پیدا ہوئی بیرون ملک کا سفر کیا۔ وہاں کے علماء و مفسرین اور کتبخانوں سے مراجعہ کیا۔ ہندوستان کے ارباب علم اور مختلف کتبخانوں سے رابطہ قائم کیا۔ کوشش یہی رہی کوئی مفسر یا مترجم رہ نہ پائے۔ مگر اس کے باوجود بھی اگر کسی کا تذکرہ رہ گیا ہو تو وہ قصداً نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ ارباب علم متوجہ فرمائیںگے۔
میں نے مقدمہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصے میں حضرت محمد مصطفی    صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم و ائمہ علیھم السلام کی تفسیری خدمات کا ذکر کیا۔ دوسرے حصے میں اصحاب کرام، تابعین اور علماء عظام کی تفاسیر کا مختصر جائزہ لیا ہے۔ تاکہ اردو داں طبقہ بھی ان کی خدمات سے آشنا ہو سکے۔
اس کتاب میں بر صغیر کے شیعہ اثنا عشری مفسرین کا تذکرہ طبقات کے اعتبار سے کیا ہے۔ صدی کے تعین میں مفسر کے سال وفات کا خیال رکھا۔ جن کا سال وفات معلوم نہ ہو سکا یا جو بحمدﷲ حیات ہیں ان کی صدی کا تعین سال اشاعت کے اعتبار سے کیا ہے۔ اس تذکرہ میں دسویں صدی ہجری سے پندرہویں صدی ہجری کے مفسرین و مترجمین کا ذکر ہے۔ افادیت کے پیش نظر آخر کتاب میں ’’متعلقات قرآن‘‘ کا باب قائم کیا ہے جس میں علوم قرآن و قرآنیات سے متعلق کتب کا ذکر ہے۔ بعون اﷲ عز و جل کتاب پائے تکمیل کو پہونچی۔
مفسر کی سوانح حیات کے سلسلے میں کتاب’’ مطلع انوار‘‘ و ’’تذکرۂ بے بہا‘‘ اور مقدمہ میں ’’طبقات مفسران شیعہ‘‘ سے بھرپور استفادہ کیاہے۔
اس کاوش کی تکمیل کے سلسلے میں ان تمام کرم فرما ارباب علم و فضل کا شکر گذار ہوں جن کا مسلسل تعاون رہا۔ بالخصوص حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر غلام رضا مہدوی نمایندہ جامعۃ المصطفیٰ العالمیۃ کا سپاس گذار ہوں جن کی ہمت افزائی سے یہ کتاب منظر عام پرآرہی ہے۔
استاذالعلماء محترم علامہ سید محمد شاکر نقوی، ڈاکٹر مولاناسید محمد سیادت امام جمعہ امروہہ اور مولانا سید غلام عباس نقوی پرنسپل دارالعلوم سیدالمدارس کا ممنون ہوں جنھوںنے مفید مشوروں سے نوازا۔
برادران عزیز جناب سید تاجدار حسین صاحب، جناب سید شاندار حسین صاحب، جناب سید اقتدار حسین صاحب کا صمیم قلب سے شکر گذار ہوں جنھوں نے اس خدمت کو انجام دینے کے لیے مواقع فراہم کئے۔ مولوی غلام حیدر صاحب لائق تشکر ہیں جنھوں نے پروف ریڈنگ کی ذمہ داری نبھائی ۔ جناب توفیق احمد صاحب قادری کا ممنون و متشکر ہوں جنھوںنے اپنے کتب خانہ سے استفادہ کا موقع دیا اور ضروری کتب فراہم کیں۔
خداوند عالم بحق محمد و آل محمد علیھم السلام اس ادنیٰ سی کاوش کو قبول فرمائے اور والد ماجد مرحوم سید علمدار حسین بن سید اختر حسین مرحوم کی بخشش کا ذریعہ قرار دے۔ (آمین)
            وما توفیقی الاباﷲ
    و آخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین
 خادم الشریعۃ المطہرہ
  السید شہوار حسین الامروہوی
           الاستاذ دارالعلوم سید المدارس امروہہ
            جمادی الاولیٰ ۱۴۳۲ھ/مارچ ۲۰۱۱ء
            امامیہ ریسرچ سینٹر  حقانی اسٹریٹ،
    امروہہ،یو۔پی۔     ہندوستان

No comments:

Post a Comment