Sunday 3 March 2013

حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا اور قرآن


حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا اور قرآن
دختر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام (۱۱ھ) کو قرآن مجید سے خاص انس تھا آپ اکثر اوقات قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں اور مدینہ کی خواتین کو تفسیر قرآن کا درس دیتیں۔ آپ کا کلام آیات قرآنی کی روشنی میں ہوتا تھا۔ گفتگو میں بھی آیات کا استعمال فرماتیں۔ آپ نے اپنے خطبہ میں جسے ’’خطبہ فدک‘‘ کہا جاتا ہے آیات قرآنی سے استدلال کرکے اپنے حق کا مطالبہ کیا جس کے اقتباسات ہدیۂ ناظرین ہیں:
’’اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ تم تن پرور ہوگئے ہو۔ اور اسے تم نے الگ کر دیا جو زمام اپنے ہاتھ میں لینے کا زیادہ حق دار تھا۔ اور آرام طلب ہو گئے ہو۔ زندگی کی سختی سے نکل کر عیش کی وسعت میںپہنچ گئے ہو یہی وجہ ہے کہ تم نے جو بچایا تھا اسے گنوا دیا اور جس کو نگل چکے تھے اس کو اگل دیا دیکھو ’’فَاِن تکفروا انتم و من فی الارضِ جمیعاً فان اﷲ لغنیٔ حمید(سورہ ابراہیم ۸)‘‘ اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سبھی کافر ہوجائیں تو خدا سب سے بے نیاز ہے‘‘
دوسرا اقـتباس:
حضرت ابوبکر نے کہا رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’نحن معاشر الانبیاء لانرث ولانورث‘‘ ہم گروہ انبیاء نہ وارث بنتے ہیں اور نہ وارث بناتے ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا نے جواب دیا: سبحان اﷲ! مجھے اس تہمت پر تعجب ہے، رسول خداؐ کتاب خدا سے منحرف نہیں تھے۔ اور نہ قرآن کے احکام کے مخالف تھے بلکہ آپ ہمیشہ قرآن مجید کی پیروی کرتے تھے اور اس کے سوروں کے موافق عمل کرتے تھے۔کیا تم مکر و فریب پر متحد ہوکر رسول اکرمؐ پر جھوٹ کا الزام لگانا چاہتے ہو۔ آنحضرت کی وفات کے بعد تمہارا یہ کام انھیں فتنوں جیسا ہے جو تم نے ان کی حیات میں انہیں قتل کرنے کے لیے بپا کئے تھے۔ اﷲ کی کتاب میرے اور تمہارے درمیان عادل، حاکم ہے اور حق و باطل کو جدا کرنے والی ہے۔ جو یہ کہتی ہے ’’یَرِثُنی و یَرثُ مِن آلِ یعقوبَ‘‘ (سورہ مریم :۶)
حضرت زکریا نے خدا سے دعا کی ’’مجھے ایک فرزند عطا فرما کہ جو میری اور       آل یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔’’وَوَرِثَ سُلَیْمانَ دَاؤدَ‘‘ (سورہ نمل ۱۶)
اور سلیمان نے داؤد کی میراث پائی۔ میراث کی تقسیم کو خدا نے واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے اور میراث میں سے ہر ایک کے حصہ کو معین کر دیا اور میراث میں لڑکے لڑکیوں کے حصہ کی اس طرح وضاحت کی ہے کہ جس سے اہل باطل کے بہانے نقش بر آب ہوگئے ہیں اور اس سلسلہ میں قیامت تک کے لئے شک و تردید کے راستوں کو بند کر دیا ہے۔ ’’کلَّا سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنَفسکم امراً فصبر جمیل واﷲ المستعان علی ما تصفون‘‘ (سورہ یوسف :۱۸)
حقیقت وہ نہیں جو تم کہتے ہو بلکہ تمہارے دلوں نے ایک بہانہ تراش لیا ہے پس صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۱؎۔
اس طرح آپ نے اپنے کلام کو کلام الٰہی سے مزین کیا

No comments:

Post a Comment