Sunday 3 March 2013

ابوالفضل، علّامی(م ۱۰۱۱ھ)

ابوالفضل، علّامی(م ۱۰۱۱ھ)
شیخ مبارک کے دوسرے فرزند تھے ۹۵۸ھ/۱۴؍جنوری ۱۵۵۱ء کو آگرہ میں متولد ہوئے۔ پندرہ سال کی عمر میں علوم عقلیہ و نقلیہ سے فارغ ہوکر امتیازی حیثیت حاصل کی۔ گوشہ نشینی کی زندگی گذارنا چاہتے تھے مگر احباب کے اصرار کی وجہ سے اکبربادشاہ کے جلوس تخت کے انیسویں سال ان کی خدمت میں پہنچ کر ملازمت اختیار کی۔ پہلے منشی گری کی خدمت ملی پھر ذہانت کے ذریعہ عہدۂ وزارت تک پہنچ گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنی لیاقت کا سکہ بادشاہ کے دل میں ایسا بٹھا یا کہ بادشاہ کو ان کے علاوہ کسی پر اعتبار ہی نہیں رہا۔
شیخ عبدالنبی صدر الصدور ابوالفضل کی شیعیت کے سبب ان سے حسد کرتا تھا اور شیخ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتا تھا۔ مگر شیخ کی اعلیٰ صلاحیتوں اور نظم و نسق میں مہارت کے سبب کسی کی کچھ نہیں چلتی تھی۔
دکن سے واپسی کے موقع پر جہانگیر کے اشارہ سے راجہ ہرسنگھ دیو نے ’’رندیلہ‘‘ مقام پر ۱۰۱۱ھ/۱۶۰۲ء میں شیخ ابوالفضل کو قتل کر دیا۱؎۔
تفسیر اکبری:  شیخ ابوالفضل نے آیت الکرسی کی دقیق اور پرمغز تفسیر تحریر کی جس کا تاریخی نام تفسیر اکبری ۹۸۳ھ ہے۔ بادشاہ کی خدمت میں پیش کی۔ اکبر بادشاہ نے تفسیر کو بہت  پسند کیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔
ملاعبدالقادر بدایونی :
’’شیخ نے دوسری بار یابی کے موقع پر آیت الکرسی کی تفسیر پیش کی جس میں بہت سے قرآنی دقیق نکات تھے۱؎۔‘‘
سید صباح الدین عبدالرحمن:
’’ان ہی دنوں جب کہ وہ ان ذہنی پریشانیوں میں مبتلا تھا تو اس نے آیت الکرسی کی ایک تفسیر لکھی اور اکبر کے حضور میں پیش کی اکبر نے اس کو حسن قبول عطا کیا اور اپنی نوازشوں سے نواز کر اپنی ملازمت میں داخل کر لیا۔۲؎ ‘‘
صاحب نزہۃ الخواطرـ:
’’الشیخ العالم الکبیر العلامۃ ابوالفضل بن المبارک الناگوری اعلم و زراء الدولۃ التیموریۃ و اکبر ہم فی الحدس والفراسۃ و اصحابۃ الرای و سلامۃ الفکر و حلاوۃ المنطق والبراعۃ فی الانشائ…
ودعاء السلطان اکبر بن ہمایو التیموری بمدینۃ اکبرآباد مع والدہ فادرکہ فی حدود سنۃ احدی و ثمانین و تسعمائۃ مرۃ اولیٰ و اہدیٰ الیہ کتابۃ فی تفسیر آیۃ الکرسی ثم ادرکہ فی حدود سنۃ اثنتین و ثمانین مرۃ اخریٰ و اہدیٰ الیہ کتابہ فی تفسیر سورۃ الفتح فاستحسنہ السلطان و قربہ الی نفسہ۳؎‘‘
دیگر آثار علمی:
آئین اکبری        جامع اللغات
عیار دانش            مکاتبات علامی۴؎

No comments:

Post a Comment