Sunday 3 March 2013

دوسری صدی

دوسری صدی
مجاہدبن جبر:علم تفسیر میںاعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ تیس بار عبداﷲ بن عباس کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ صاحب معجم المؤلفین نے آپ کو مفسر قرآن لکھا ہے اور ان کی تفسیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ مکہ کے رہنے والے تھے۔ ۲۱ ہجری میں متولد ہوئے اور ۱۰۴ھ میں حالت سجدہ میں وفات ہوئی۔ ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ آپ کی عمر ۸۳ سال تھی۔
طاؤس بن کیسان یمانی:ابوعبدالرحمن طاؤوس بن کیسان یمانی تابعی، صحابی امام زین العابدین علیہ السلام داودی نے لکھا ہے کہ ’’طاوؤس اہل علم و عمل میں سے تھے۔
حضرت رسول اﷲ کے ۵۰ اصحاب کی صحبت اختیار کی۔ ۴۰ بار زیارت بیت اﷲ سے مشرف ہوئے۔ مستجاب الدعوات تھے۔‘‘ ابن تیمیہ نے تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اعلم الناس تسلیم کیا ہے۔ ۷؍ذی الحجہ ۱۰۶ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎
عطیہ بن سعد عوفی:مشہور مفسر قرآن اور امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب میں تھے۔ نجاشی نے بلاذری سے نقل کیا ہے کہ عطیہ، ابان بن تغلب کے استاد تھے۔ پانچ جلدوں میں تفسیر لکھی۔ ’’تین مرتبہ قرآن بصورت تفسیر، ابن عباس کے سامنے پڑھا۔اہلبیت علیہم السلام کے شیدائی تھے۔
آقا بزرگ تہرانی :
’’عطیہ صاحب تفسیر تھے۔ ابان بن تغلب، خالد بن طھمان اور زیاد بن منذر کے استاد تھے۔ ۲؎  ۱۱۱ھ میں وفات ہوئی۔‘‘
زید بن علی الشہید:امام زین العابدین کے فرزند تھے نامور مفسر قرآن،شجاع بہادر، سخی اور مجاہد تھے۔ آپ نے کتاب قرأت کو اپنے جد حضرت امیرالمومنین سے روایت کیا ہے۔ ہشام بن عبدالملک کے زمانہ میں اپنے جد کے خون کا بدلہ لینے کے لیے قیام کیا۔ماہ صفر میں ۱۲۱ھ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
ابو محمد اسماعیل سدی: امام سجاد اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھم السلام کے صحابی اور کوفہ کے رہنے والے تھے۔ داؤدی کا بیان ہے کہ آپ نے ابن عباس، انس اور جمعی سے روایت کی ہے۔ طبقہ چہارم میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ ۱۲۷ھ میں وفات ہوئی۔ ۱؎
جلال الدین سیوطی :
’’اسماعیل سدی نے اپنی تفسیر کی اسناد ابن مسعو د اور ابن عباس سے نقل کی ہیں۔ یہ تفسیر بہترین اور کامل تفسیر ہے۔۲؎‘‘
جابر بن یزید جعفی: آپ کا شمار دوسری صدی کے نامور تابعین میں ہوتا ہے۔ امام محمدباقرؑ کے خاص شاگرد تھے، انھیں سے درس تفسیر لیا ۔ ۱۲۸ھ میں وفات ہوئی۔
نجاشی لکھتے ہیں:
’’ابو جعفر جعفی عربی الاصل تھے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کا زمانہ درک کیا۔ ۱۲۸ھ میں وفات ہوئی، آپ کی تالیفات میں تفسیر قرآن کے علاوہ ’النوادر ‘، ’الفضائل‘، ’الجمل‘، ’الصفین‘، ’النہروان‘، ’مقتل امیر المومنین‘، مقتل الحسین‘ ہیں۔۳؎‘‘
یحییٰ بن یعمر:دوسری صدی کے مشہور قاری، لغت شناس تابعی تھے۔ علم و معارف ابوالاسود دوئلی سے حاصل کیا۔ ابن خلکان کا بیان ہے کہ ’’آپ علم تفسیر کے بزرگ عالم تھے۔ عبداﷲ بن اسحاق، اور شیعیانی کے مشائخ میں سے تھے۔ محبت اہل بیت کے سبب۔ حجاج نے خراسان جلا وطن کر دیا تھا۔ ۱۲۹ھ میں وفات ہوئی۔‘‘۱؎
ابن ابی شعبہ حلبی:امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی، مفسر اور فقیہ تھے۔
صاحب معجم رجال الحدیث لکھتے ہیں کہ حلب میں تجارت کرنے کی وجہ سے حلبی مشہور ہوئے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ آپ ہی سے تفسیر آیۂ ’’رب اغفرلی ولوالدی و لمن دخل بیتی مومناً‘‘ تفسیر قمی میں نقل ہوئی ہے۔۱۳۵ھ میں وفات ہوئی۲؎
زید بن اسلم عدوی:امام زین العابدین کے صحابی تھے۔ شیخ طوسی نے فہرست رجال میں امام صادق کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تفسیر خط سکریّ میں ہے۔ آپ کی وفات ۱۳۶ھ میں ہوئی۳؎۔
داؤد بن ابی ہند:امام محمد باقرؑ کے صحابی اور نامور مفسر قرآن، تابعی تھے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا تذکرہ کیا ہے۴؎۔ صاحب الذریعہ آقا بزرگ تہرانی نے تفاسیر شیعہ میں آپ کی تفسیر کوشمار کیا ہے۵؎۔  ۱۳۹ھ میں مکہ کے راستہ میں وفات ہوئی۔
ابان بن تغلب:امام زین العابدین امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام کا زمانہ درک کیا، ان کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور احادیث بھی نقل کیں۔ تفسیر و علوم قرآنی میں تبحر رکھتے تھے۔
نجاشی:
’’کان قاریاً من وجوہ القراء فقیہا لغویاً سمع من العرب و حکی عنہم‘‘۱؎   
محمد بن عبداﷲ شافعی کا بیان ہے کہ ’’ابان اہل علم و فن کے پیشوا ہیں جن میں قرآن، فقہ، حدیث، ادب، لغت، نحو جیسے علوم شامل ہیں۔ آپ کی دو کتابیں  ’’تفسیر غریب القرآن‘‘ اور کتاب ’’الفضائل‘‘ مشہور ہیں۔۲؎
 صاحب ’’تاسیس الشیعہ‘‘ کا بیان ہے کہ ’’ابان ہی نے سب سے پہلے معانی قرآن کے سلسلے میں کتاب لکھی۔ ۱۴۱ھ میں آپ کی وفات ہوئی۳؎۔
محمد بن سائب کلبی:امام محمد باقر اور امام صادق کے اصحاب میں تھے۔ ابن ندیم نے الفہرست میں علوم قرآن سے متعلق کتابوں میں ’’آیات الاحکام کلبی‘‘ کا ذکر کیا ہے۴؎۔ آقا بزرگ تہرانی نے بھی اس تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں کہ : ’’آپ امام جعفر صادق کے خاص شیعوں میں تھے۔ مفسر اور کوفہ کے مشہور نساب تھے۔ اور آپ نے تفسیر قرآن لکھی۔  ۱۴۶ھ میں وفات ہوئی۵؎۔
ہشام بن سالم: امام جعفر صادقؑ اور امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ نجاشی نے آپ کو ثقہ تحریر کرتے ہوئے تین تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ (۱)تفسیر قرآن (۲) کتاب الحج (۳) کتاب المعراج۱؎ ہشام نے امام جعفر صادق سے ’’کامل الزیارات‘‘ نقل کی ہے۔ ۱۴۸ھ میں وفات ہوئی۔
اعمش کوفی:امام جعفر صادقؑ کے صحابی اور مفسر قرآن تھے، کوفہ میں رہتے تھے اور ۵۰ااحادیث کے راوی ہیں۔ ۱۴۸ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
اسماعیل سکونی:امام صادق کے صحابی تھے اور علم تفسیر میں مہارت رکھتے تھے۔ نجاشی نے رجال میں ان کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر قمی میں تفسیر آیہ سورہ نحل ’’اِنَّ اﷲ یا مربالعدل والاحسان‘‘انہی سے مروی ہے۳؎۔
ابو خالد کابلی:امام زین العابدین اور امام محمد باقر کے صحابی تھے تفسیر قمی میں تفسیر آیۂ سورہ قصص’’اِنَّ اﷲَ فرض علیک القرآن لراّدک الی معاد‘‘ آپ ہی سے مروی ہے۴؎۔
وہیب بن حفص:امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظمؑ کے چاہنے والے ،  ثقہ اور مورد اعتماد تھے۔ آپ کی دو تالیفات ’’تفسیر قرآن‘‘ ’’شرائع و احکام‘‘ منظم و مرتب ہیں۵؎۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۔
ابو حمزہ ثمالی:کوفہ کے رہنے والے تھے۔ امام زین العابدین سے امام موسیٰ کاظم تک چار اماموں کی زیارت کا شرف حاصل تھا، ابن ندیم نے الفہرست میں اور ثعلبی نے آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی جو آپ سے مروی ہے بہت مشہور ہے، کتاب النوادر اور رسالہ الحقوق آپ کی یادگار ہیں۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۱؎۔
منخل بن جمیل اسدی:صحابی امام جعفر صادق اور مفسر قرآن تھے۔ تفسیر قمی میں تفسیر سورہ نور آپ سے مروی ہے۔ نجاشی نے تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ آپ کی وفات ۱۵۰ھ میں ہوئی۔
حسن بن واقد مروزی:امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیف ’’الناسخ والمنسوخ‘‘ ہے۔ آقا بزرگ تہرانی نے ابن ندیم کے حوالے سے دوسری تالیف ’’الرغیب فی علوم القرآن‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۲؎۔
 محمد بن فرات:صحابی امام محمد باقر اور مفسر قرآن تھے۔ اصبغ بن نباتہ سے روایت نقل کی ہے۔ ۱۵۰ھ میں وفات ہوئی۔ صاحب معجم رجال الحدیث نے مفصل حالات تحریر کئے ہیں۔
 ابن کثیر ھاشمی:امام جعفر صادقؑ کے صحابی تھے۔ آپ کی تالیفات میں ’’کتاب فضل سورۃ القدر‘‘، کتاب ’’صلح الحسن‘‘ ، کتاب ’’فدک‘‘ اور کتاب ’’الاظلہ۳؎‘‘ مشہور ہیں۔۱۵۵ھ میں وفات ہوئی۔
 حمزہ بن حبیب زیات:دوسری صدی کے ’’امام القرأ‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ ابن ندیم نے آپ کی تالیفات ’’متشابہ القرآن‘‘ ’’مقطوع القرآن‘‘ اور ’’کتاب القرأت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ امام جعفر صادق کے صحابی تھے۔  ۱۵۶ھ میں وفات ہوئی۴؎۔
ابن شعبہ حلبی:ابو جعفر محمد بن علی بن ابی شعبہ حلبی۔ دوسری صدی کے معتبر مفسر قرآن تھے۔ تفسیر قرآن کے علاوہ احکام فقہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ آپ سے مروی امام حسین علیہ السلام پر زمین و آسمان کے گریہ کی روایت کامل الزیارات میں نقل کی گئی ہے۔ ۱۶۰ھ میں رحلت فرمائی۱؎۔
 مالک بن عطیہ:امام جعفر صادقؑ کے صحابی، کوفہ کے رہنے والے تھے۔ نجاشی نے موثق اور مورد اعتماد تحریر کیا ہے۔ سورہ یٰس کی تفسیر آپ سے مروی ہے۔ تفسیر قمی میں بھی اس کا ذکر ہے۔ ۱۶۰ھ میں رحلت فرمائی۲؎۔
ابو جنادہ سلولی:امام جعفر صادق و امام موسیٰ کاظم کے صحابی تھے۔ نجاشی لکھتے ہیں کہ:
’’ان کی تفسیر ’’ تفسیر والقرأت‘‘ ہے۔ مبسوط تفسیر ہے جس کی سند تین واسطوں سے نقل کی گئی ہے۔۳؎‘‘
ابن ندیم نے شیعیان متقدمین میں شمار کیا ہے اور ان کی تالیفات میں کتاب التفسیر اور کتاب جامع العلم کا ذکر کیا ہے۴؎۔۱۸۰ ھ میںرحلت فرمائی۔
علی بن ابی حمزہ سالم بطائنی:صحابی امام موسیٰ کاظمؑ، نجاشی نے تفسیر قرآن کے علاوہ کتاب فضائل القرآن، القائم الصغیر، کتاب الرجعہ، کتاب فضائل امیرالمومنین، کتاب الفرائض کا بھی ذکر کیا ہے۵؎۔
 محمد بن خالد برقی: امام علی رضا اور امام محمد تقی کے صحابی تھے۔ نجاشی نے تفسیر قرآن کے علاوہ، کتاب مکہ و مدینہ، جنگھای اوس و خزرج، العلل، علم الباری کا بھی ذکر کیا ہے۱؎۔ ۱۸۳ھ میں رحلت فرمائی۔
ابوالحسن علی بن حمزہ بن عبداﷲ کسائی:مشہور نحوی تھے۔ اطراف کوفہ میں متولد ہوئے۔ عاشق اہلبیتؑ تھے۔ قرأت اور تفسیر میں تبحر رکھتے تھے۔
زرکلی نے الاعلام میں معانی القرآن، المصادر، الحروف، القرأت، النوادر، المتشابہ فی القرآن کا ذکر کیا ہے۲؎۔ ۱۸۹ھ میں رحلت ہوئی۔
 سفیان بن عیینہ: رجال طوسی میں آپ کو امام جعفر صادقؑ کا صحابی شمار کیا گیا ہے۔ مکہ میں قیام تھا۔ ۹۱ سال کی عمر میں ۱۹۸ھ میں رحلت کی۔ ابن ندیم نے الفہرست میں آپ کی تفسیر کا ذکر کیا ہے۳؎۔
 دارم بن قبیصہ:امام علی رضاؑ کے صحابی تھے۔ قرآن کے موضوع پر دو تالیفات  ۱: الوجوہ والنظائر ۔ ۲: الناسخ والمنسوخ آپ کی یادگار ہیں۔ نجاشی نے تین واسطوں سے روایت نقل کی ہے۔  ۲۰۰ھ۴؎میں رحلت کی۔
 ابن اسباط کندی:امام رضاؑ اور امام محمد تقیؑ کے صحابی تھے۔ نجاشی نے کتاب التفسیر کے علاوہ الدلائل، المزار، النادر کا بھی ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت فرمائی۵؎۔
 ابو صلت قمی: امام رضاؑ کے صحابی اور امام محمد تقیؑ کے وکیل تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں وفات پائی۔۶؎
 ابن یسار بصری: امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے صحابی تھے۔ امام باقر سے آیۂ ’’یوم ندعو کل اناس باما مہم ‘‘کی تفسیر نقل کی ہے۔ کامل الزیارات میں ثواب زیارت رسول خداؐ آپ سے مروی ہے۔ ۱۴۷ھ میں وفات پائی۱؎۔
 محمد بن علی بن ابی شعبہ: دوسری صدی کے نامور مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا ذکر کیا ہے۔  ۱۹۵ھ میں رحلت کی۲؎۔
معلی بن محمد بصری: امام موسیٰ کاظم کے صحابی تھے۔ علامہ کلینی اور ابن قولویہ نے آپ کی روایات نقل کی ہیں۔ نجاشی نے آپ کی تفسیر قرآن کا بھی ذکر کیا ہے۔  ۲۰۰ھ میں رحلت کی۳؎۔
احمد بن صبیح: ابو عبداﷲ احمد بن صبیح اسدی کوفی مفسر قرآن تھے۔ نجاشی نے آپ کی تالیفات میں ’’کتاب التفسیر‘‘ اور ’’النوادر‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ۲۰۰ھ میں رحلت پائی۴؎۔



No comments:

Post a Comment